صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

مایا وتی ناراض کیوں ہیں ؟

1,636

تحریر : ڈی ، ڈی ، گوکھلے ۔ ترجمہ عارِف اگاسکر

اُتر پردیش میں سماج وادی پارٹی ، بہو جن سماج پارٹی اورراشٹریہ لوک دل پارٹیوں نے متحد ہو کر بی جے پی کے خلا ف محاذ بنایا ہے ۔ لیکن اپنے اتحاد میںانہوں نےکانگریس کو شامل نہیں کیا ہے جس کے سبب کانگریس نے متحدہ محاذ کے اس فیصلہ کو اپنی ہتک محسوس کیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ راہل گاندھی اور سو نیا گا ندھی امیٹھی اور رائے بریلی کی جن سیٹوں سے منتخب ہو تی ہیں ان سیٹوں کو مایا وتی کانگریس کے لیے چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھیں ۔ لیکن سماج وادی پارٹی کے لیڈر اکھلیش یادو نے انہیں منا لیا ہے ۔ جبکہ سماج وادی پارٹی اپنی روایت کے مطابق ان سیٹوں سے دستبر دار ہو گئی ہوگی ،جس سے یقینی طور پر یہی مطلب نکلتاہے کہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے ان سیٹوں کو کانگریس کے لیے چھوڑ بھی دیا تو راہل گاندھی اور سو نیا گاندھی کے لئے وہاں کی لڑائی کا راستہ آسان نہیںہو گا ؟ یہ بات قابل ذکر ہے کہ۲۰۱۷ء میں اتر پردیش میں ہوئے اسمبلی انتخا بات کے دوران رائے بریلی اور امیٹھی لوک سبھا حلقہ انتخاب میں کانگریس کی کار کر دگی انتہائی ناقص رہی تھی ۔

سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی متحدہ محاذ میں کانگریس کی عدم شمولیت سے مایوس کانگریسیوں کا جوش و خروش بڑھانے کے لیے کانگریس نے پرینکا گاندھی کو سر گرم سیاست میں اتارنے کا فیصلہ کیا ، اورکانگریس نے انہیں مشرقی اتر پردیش کی ذمہ داری سونپ دی ۔ پرینکا گاندھی کے تعلق سے عوامی رد عمل بہتر ہو نے کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ وہ اسے ووٹوں میں تبدیل کر سکیں گی ؟ کیونکہ اترپردیش میں کانگریس انتہائی کمزور حالت میں ہے ۔ وہاں پر کانگریس کو مسلسل شکست ہو نے سےکانگریسی رضاکاروں میں مایوسی کا ماحول پیدا ہو گیا ہے ۔ جس کے سبب درمیانی عرصہ میںکانگریس کے کئی لیڈران نے پارٹی کو خیر باد کیا ہے۔۱۹۸۹ءکے بعداتر پردیش میں کانگریس کو جو ناکامی حاصل ہوئی ہے اس سے ابھی تک وہ ابھر نہیں سکی ہے۔اس بار کانگریس نے اتر پر دیش میں اپنے بل بو تے پر لوک سبھا کی تمام سیٹوں پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ درحقیقت اترپردیش کانگریس کے پاس تمام سیٹوں پر لڑنے کی قوت نہیں ہے ۔ لیکن ’رسی جل گئی پر بل نہیں گیا‘ کے مترادف کانگریس کو اس حقیقت کا احساس نہیں ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا انتخاب میں اتر پردیش میں لوک سبھا کی ۲؍ سیٹوں پر کامیابی حاصل کر نے والی اور ۲۰۱۷ء میں اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں کل ۴۰۳ ؍سیٹوں میں سے صرف ۷؍ سیٹیں حاصل کر نے والی کانگریس کے ذریعہ اس بار لوک سبھا کی تمام سیٹوںپرانتخاب لڑنےکے فیصلہ نے سبھی کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔

سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی متحدہ محاذ کے لیے اتر پردیش میں کانگریس کے ذریعہ لوک سبھا کی ۷؍ سیٹوں کو چھوڑنے کے فیصلہ کو ایک بڑا مذاق ہی کہا جائے گا نیزکانگریس کے اس فیصلہ کو یک طرفہ اعلان ہی کہا جائے گا۔ کیو نکہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے کانگریس سے ایسی کوئی بھی درخواست نہیں کی تھی۔ انتخابی میدان میںمایا وتی ، (جنھوں نے لوک سبھا کا انتخاب نہ لڑ نے کا فیصلہ کیا ہے) ملائم سنگھ یادو ، اجیت سنگھ وغیرہ لیڈران کے خلاف کانگریس نے انتخابی میدان میں اپنے امیدوار نہ اتار نے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جبکہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے بھی انتخابی میدان میں راہل گاندھی اور سو نیا گاندھی کے خلاف اپنے امیدوار نہ اتار نے کا اعلان کیا ہے ۔ شاید کانگریس نےاس احسان کا بدلہ چکا نے کے لیے سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے لیے ۷؍ سیٹیں چھوڑ نے کا فیصلہ کیا ہو گا ۔ لیکن اس کی وجہ سے سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے ظاہری طور پراپنی خوشی کا اظہار کر نے کی بجائے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہےجس کے سبب کانگریس کے احسان کی مٹی پلید ہو گئی ہے ۔

اتر پردیش لوک سبھا انتخاب میںکانگریس کے متعدد امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو نے والی ہے ، یہ کہنے کے لیے کسی نجومی کی ضرورت نہیں ہے ۔ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے لیے کانگریس۷؍ سیٹیں چھوڑ کر ان کی کتنی مدد کر سکے گی اس کی مکمل جانکاری سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو ہے۔اس کے برخلاف مفت کا احسان جتا کر کانگریس نے اتر پردیش کے رائے د ہندگان میں کھلبلی کا ماحول پیدا کیا ہے ۔ جس کے سبب بہوجن سماج پارٹی کی سر براہ مایا وتی اور سماج وادی پارٹی لیڈر اکھیلیش یادو نےکانگر یس سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ مایاوتی نے تو کانگریس کو صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ ہمارے لیے کانگریس کو سیٹیں چھوڑ نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی متحدہ محاذ پوری طرح سے بی جے پی کو شکست دینے کےقابل ہے ۔ مایا وتی کا کہناہے کہ اتر پردیش میں تما م یعنی ۸۰؍ سیٹوں پر کانگریس کے انتخاب لڑ نے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ یعنی کانگریس نے سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے لیے جو ۷؍ سیٹیں چھوڑ نے کا فیصلہ کیا ہے اس میں کانگریس بری طرح ناکام ہوگئی ہے ۔

یہ بات سچ ہے کہ اپنے بل بوتے پرکانگریس کے ذریعہ تمام سیٹوں پر انتخاب لڑ نےکے فیصلہ سے مایاوتی اور اکھیلیش یادوکوکچھ حد تک جھٹکا ضرور لگا ہے ۔ کانگریس اتر پردیش میںہاتھ کی انگلیوںپر گنی جائے اتنی سیٹیں بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔لیکن اس بات کوذہن نشیں کر نا ہو گا کہ اتر پردیش کے گزشتہ کئی انتخاب میں۷؍ سے ۸؍ فی صد ووٹ حاصل کر نے والی کانگریس کتنی پریشانی کا سبب بن سکتی ہے ۔ بی جے پی کے خلاف انتخاب میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو حاصل ہو نےوالے ووٹوں کو کانگریس تقسیم کر سکتی ہے ۔ جس سے یقیناًبی جے پی کو اس کا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ۔ کانگریس میں یقینی طور پراتنی قوت ہے کہ زیادہ سیٹیں نہ جیتنے کے باوجود وہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے کئی امیدواروں کو شکست سے دو چار کر سکتی ہے ۔ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو فکر مند کر نے والی مزید ایک بات یہ ہے کہ ان کے مسلم ووٹوں کوسیندھ لگانے کی قوت کانگریس میں ہے ۔ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی متحدہ محاذکی کامیابی اور ناکامی مسلم سماج کی حمایت پر منحصر ہے ۔ اگرمسلم سماج کے ووٹ بڑے پیمانے پر اپنی جانب راغب کر نے میں کانگریس کو کامیابی حاصل ہوئی تو سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی محاذ کی گنتی بڑے پیمانےالٹ پھیر کا باعث بن سکتی ہے ۔

لیکن اس بات پر بھی غور کر نا ہو گا کہ لوک سبھا انتخابات میں سماج وادی پارٹی اور بہو جن سماج پارٹی کا ایک ساتھ آنے کا مقصد محض بی جے پی کو شکست دینا ہے ۔ تاہم ان دونوں جماعتوں کے حامی متحد نہیں ہو ئے ہیں ۔ سماج وادی پارٹی کو مسلم ، یادو سماج سے اور بہوجن سماج پارٹی کو مسلم اور دلت سماج سے بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہو تی رہی ہے ۔ لیکن یادواور دلت سماج میں روایتی دشمنی پر غور کیا جائے تو متذکرہ سماج کے ووٹ سماج وادی پارٹی اور بہو جن سماج پارٹی میں کیا ٹھیک ڈھنگ سے منتقل ہو سکتے ہیں ؟ اس بارے میں شبہ کر نے کے کئی اسباب ہیں ۔

آج تک کا تجربہ ہے کہ مایاوتی کی پارٹی کے ووٹ دیگر پارٹیوں کوٹھیک ڈھنگ سے منتقل ہو تے ہیں ۔ لیکن کیا سماج وادی پارٹی کے حامی یادو سماج کے ووٹ بی ایس پی کومنتقل ہو سکیں گے ؟ یہ اصل سوال ہے ۔’’۳۷؍لال کے( اکھلیش یادو) باقی سب شیو پال کے‘‘ یہ نعرے فی الحال اتر پردیش میں لگائے جا رہے ہیں ۔ ان نعروں نے بی ایس پی کی تشویش میں اضافہ کیا ہے ۔

مراٹھی روز نامہ ’آپلا وار تاہر‘۔ ۲۹ مارچ ۲۰۱۹ء

Leave A Reply

Your email address will not be published.