صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

بیت المال ، اسپتال اور نیوز چینل کیوں ضروری؟

44,625

فیروزہاشمی
مضمون نگار نئی شناخت، نئی دہلی کے ایڈیٹر اور ہیلتھ کنسلٹینٹ ہیں
گزشتہ تین مہینوں سے جاری لاک ڈاؤن نے لوگوں کو اپنے گھروں میں قید کر رکھا تھا۔ گاہے بگاہے اب تھوڑی مہلت بھی دی جارہی ہے۔ کیوں کہ عرصہ تین ماہ میں ملکی معیشت اور گھریلو پیداوار کی رفتار تھم سی گئی تھی۔ اب کچھ پروڈکشن کا سلسلہ شروع ہوا ہے لیکن نوکری پیشہ اور درمیانہ طبقہ کی مالی حالت نہایت ہی نازک بن چکی ہے۔ ایسی حالت میں بیت المال، سپر اسپیشلیٹی ہوسپیٹل اور ٹیلی ویژن چینل کے بارے میں واویلاکرنا کس حد تک درست ہے؟ اور ان کا قیام اِسی وقت کیوں ضروری ہے؟
اس وقت جو طاعون ہمارا ملک سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیلا ہوا، خبروں کے مطابق بیماری بڑھتی ہی جارہی ہے اور اموات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جس کی خبر لمحہ بہ لمحہ ملتی رہتی ہیں۔ کیوں کہ آج کے مواصلاتی دور میں بذریعہ انٹرنیٹ ہر خبر آسانی سے پہنچ جاتی ہے۔ اس وبا سے نبردآزما ہونے کے جو بھی رہنما اصول مرتب کئے گئے ہیں، اسے اپنا کر ہی اپنی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی گھر میں قید ہونے کی وجہ سے ہمیں کچھ اضافی وقت دستیاب ہوا ہے۔ ہم اگر اس وقت کا بہتر استعمال کرتے ہیں تو مستقبل کے لئے بہتر لائحہ عمل مرتب کر سکتے ہیں اور بہت سے کام اس خالی وقت میں بھی کر سکتے ہیں۔ پڑھنے لکھنے کا سلسلہ اکثر انہی ایام میں کئے جاتے رہے ہیں۔ تاریخ میں بہت ساری شخصیتوں کے نام آتے ہیں جنہوں نے قید و بند کی حالت میں مختلف قسم کے ایجادات اور معرکۃ الآراء تصنیفی کام انجام دیئے۔ اور لوگوں کے لئے بہتری کا ذریعہ بنے۔
اس وقت سب سے پہلا کام اپنا خود کا محاسبہ کرنا بہت ضروری ہے، جیسے کہ انہوں نے کون کون سے ایسے کام کئے جسے نہ کرتے تو زیادہ بہتر حالت میں ہوتے۔ یا کون کون سے ایسے کام کئےجس کی وجہ سے مالی تنگی میں مبتلا ہوئے۔ روزانہ کے رہن سہن میں کس قسم کی غلطیاں کی جس کی وجہ سے بیماری میں اضافہ ہوا اوروہ بیماری اُن کی موت کا سبب بنا۔ اگر ہم ان باتوں پر غور کرتے ہیںتو پتا چلتا ہے کہ بہت ساری خامیوں اور کمیوں میں ایک سب سے بُری بیماری کا نام ہے ’’لاپروائی‘‘۔ اگر ہم نے معاشرتی لاپرواہیوں کو چھوڑ دیا تو ہم صحت مند اور خودکفیل زندگی گزار سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والے کو دوست رکھتا ہے (سورۃ البقرہ آیت ۱۹۵)
اس آیت کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا کیا کہلاتا ہے ۔ احسان کا مطلب یعنی اچھے کام کرو بے شک اللہ تعالیٰ اچھے کام کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ اللہ کی پسندیدہ کام ہی احسان کہلاتا ہے۔
لیکن جب محاسبہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہماری بیماری کی وجہ ہماری خود کی لاپروائی ہے۔ نہ وقت پر کھانا پینا، نہ وقت پر کام کرنا، نہ وقت پر سونا۔ نہ اور دیگر کاموں کو اُس کے اپنے وقت پر انجام دینا ہماری پریشانی اور مفلوک الحالی کے اسباب ہیں۔ ہم اسے درست کرکے اپنی صحت اور مالیت دونوں کا صحیح استعمال کرسکتے ہیں۔
حالات چاہے جو بھی ہوں، ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے۔تم نہ سستی کرو، نہ غمگین ہو۔ تم ہی غالب رہوگے اگر ایمان دار ہو۔(سورہ آل عمران، آیت ۱۳۹)
اگر ہم ایمانداری سے کام نہیں کریں گے اور ہماری زندگی میں جھوٹ شامل ہوگا توہم کبھی بھی غالب نہیں ہو سکیں گے۔ کسی بھی طرح کی پریشانی پر ہمارا غلبہ نہیں ہو سکے گا۔
اس وقت جو ہمارے اندر خامیاں ہیں اور غلط قسم کے سطحی رائے اور مشوروں کی بدولت ہم اپنا سرمایہ اور صحت دونوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ان میں سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیلائے گئے کئی قسم کے اقوال و آراء اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک تازہ مثال ملاحظہ فرمائیں۔اس بار زکوٰۃ کے پیسوں سے مسلمانوں کو کم سے کم تین کام کی بنیاد رکھنی چاہیے۔
۱۔ بیت المال کی بنیاد:بیت المال میں شہر کی زکوٰۃ کا پورا پیسہ اکٹھا ہو اور اس کے دو حصے ہوں۔ پچھتّر فیصد حصے میں سے بےروزگار لڑکوں کو دھندے شروع کرنے میں مدد دی جائے، بیوہ مسکین کو راشن دیا جائے ، پچیس فیصد ان بچے بچیوں پر خرچ کیا جائے جو پڑھائی میں ہوشیار ہیں لیکن غریبی کی وجہ سے پڑھ نہیں پاتے ان کو زکوٰۃ فنڈ سے پڑھایا جائے۔ اور ڈاکٹر انجینئر پروفیسر بنا کر جماعت کا تھنک ٹینک بنایا جائے۔
۲۔ مسلمانوں کا خود کا ہاسپیٹل:ابھی کے معاشرے میں ہر ضلع، ہر ریاست میں مسلمانوں کا کم سے کم ایک خود کا ملٹی سوپر اسپیشلیٹی ہاسپیٹل ہو، جس میں غریبوں ، مسکینوں کا مفت علاج ہو اور ہاسپیٹل نو لاس نو پروفٹ (No Loss, No Profit) میں چلے، قوم کی خدمت ہو۔
۳۔مسلمانوں کا خود کا نیوز چینل :مسلمانوں کا خود کا ایک نیوز چینل ہو تاکہ مسلمان کسی بھی نیوز چینل پر منحصر نہ ہو اور مسلمانوں کے خلاف فیک نیوز نہ چلائی جا سکے، اس چینل میں سچائی کے ساتھ نیوز دکھائے تاکہ ہمارے اوپر لوگ یقین کریں۔اگر یہ مناسب لگے تو اِس کو ہر قصبے، ضلع ریاست تک پہنچائے اور اللہ کی مدد، اللہ سے مانگ کر قوم کی خدمت کرے۔قوم کا سوچا جائے قوم کو آگے بڑھایا جائے۔سوال :یہ مشورہ کس کا ہے؟جواب :نامعلوم شخص کا ہے۔ لیکن مشورہ اچھا ہے۔
واٹس ایپ یونیورسٹی پرمذکورہ مشورہ گھوم رہا ہے۔ ایک بار پڑھ کر کوئی بھی اسے کہے گا ’’مشورہ اچھا ہے‘‘ ۔ مجھے بھی اچھا لگا۔ میں بھی کہہ رہا ہوں، ’’مشورہ اچھا ہے‘‘۔ لیکن سوال ہے، اِس پر عمل کرے گا کون؟ موجودہ دور میں مسلم قوم کے اندر دو صلاحیتیں بدرجہ اَتم موجود ہے۔ ایک مانگنے کی صلاحیت اور دوسرے دینے کی صلاحیت اور اِن دونوں صلاحیتوں کا درست استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے قوم کی جو بھی حالت ہے، وہ آپ سے مخفی نہیں ہے۔ دینے اور لینے کے درمیان سب سے اہم کام اس کا صحیح استعمال بھی ہے۔ یعنی آج کے دور میں کہیں تو ’’مینجمنٹ‘‘۔ یعنی زکوٰۃ کو دینے کا صحیح طریقہ اور وصولنے کا صحیح طریقہ ۔ اس کے بعد اُس کا صحیح استعمال۔ اگر صحیح استعمال ہوتا رہتا تو کیا اوپر بیان کئے گئے وہ سارے کام نہیں ہو گئے ہوتے؟ بالکل ہو جاتے۔ اور یہ کہ صرف مسلم قوم میں بلکہ دوسری قوموں سے بھی ہاتھ پھیلانے کی روایت ختم ہو جاتی، یا بہت حد تک کم ہوجاتی۔ لیکن ہاتھ پھیلانے کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔
سب سے پہلا نمبر بیت المال کی بات کر لیجیے۔ ابھی تک کتنے گاؤں، قصبہ، شہر، ضلع میں آپ نے ایسا کیا ہے؟ کوئی نام بتائیں یا فہرست ہو تو لائیں۔ کہ وہ علاقہ خود کفیل ہے، کسی دوسرے سے کسی قسم کا چندہ نہیں لیتا۔ بلکہ اپنی زکوٰۃ اور چندہ کی رقم یا اشیاء دوسرے ضرورت مندوں کو دینے لائق بن گیا ہے۔ شاید ایک دو علاقہ ایسا ہے، جسے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں کہہ سکتے۔
دوسرے نمبر پر خود کا ہاسپیٹل، بلکہ ’’ملٹی اسپیشلیٹی سوپر ہاسپیٹل‘‘۔ بہت خوب۔ دیوانے کے خواب جیسا۔ اب تک قوم کے قائم کردہ جتنے بھی ہاسپیٹل میں میرا جانا ہوا، وہاں کا مینجمنٹ بھی ویسے ہی ہے جیسا کہ عمومیت سے آپ لوگ جانتے ہیں یا سامنا کر چکے ہیں۔ وہاں بھی اصول و انتظام کی کمی ہے۔ جسے درست کرنے کے بعد ہی ’’ملٹی اسپیشلیٹی سوپر ہاسپیٹل‘‘ کا سوچنا یا لائحہ عمل تیار کرنا مناسب ہوگا۔
تیسرے نمبر پرمسلمانوں کا خود کا ’’نیوز چینل‘‘ یہ تو کسی بھی صورت میں نہیں ہو سکے گا۔ کیوں کہ جو بھی ایسا سوچے گا اور زکوٰۃ کا پیسہ لگائے گا وہ ناکام ہوگا اور آپسی رسہ کشی بڑھے گی۔ مسلمانوں کے مختلف خیالات کی بنیاد پر مسلک بن گئے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد ہی مسلکی بنیاد پر یہ کام چل پڑے گا۔ جس سے سرمایہ کی بربادی تو ہو سکے گی، کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔ جس قسم کے خیالات کی جھلک ’’مسلمانوں کا خودکا‘‘ سے دکھائی دیتا ہے وہ ایک محدود طبقہ میں رہے گا۔ اس چینل کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہوگا، اور ہر سال زکوٰۃ کی رقم سے اس میں پیسہ لگا کر چند افراد اس چینل کے ذریعہ مزید زکوٰۃ خور بن جائیں گے۔ جس سے مسلمانوں کا کچھ بھلا ہونے والا نہیں ہوگا۔
تنگی کی حالت کسی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے، بیت المال لوگوں کو خود کفیل بنانے کا ذریعہ ہونا چاہیے نا کہ خود غرض بنانے کا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں خودغرضی بڑھتی جارہی ہے۔
بیمار ہونے کے بعد علاج و معالجہ ضروری ہے۔ لیکن کیا ہم وہ طریقہ نہ اپنا لیں کہ بیمار ہی نہ ہوں؟ جی ہاں ہم اپنی روزانہ کے طریقۂ کار کو سنت کے مطابق بہتر بنا سکتے ہیں۔ خود محاسبہ کریں کہ کون کون سا غلط طریقہ اپنا رکھا ہے اسے چھوڑیں اور کون کون سا ایسا کام جس کو کرنا ضروری تھا، اسے نبھائیں اور صحت مند زندگی گزاریں۔
اپنی بات کو پہنچانے کے لئے میڈیا کی ضرورت ہیں لیکن ہماری بات میں دم ہونا چاہیے۔ کہاں گئے وہ دم دار لوگ؟ بتیس برسوں سے میں بھی میڈیا سے منسلک ہوں، اور میں نے کسی میڈیا میں اتنا دم نہیں دیکھا کہ وہ اپنی بات رکھ سکیں۔ تھوڑے ہی عرصہ میں افسروں کی چاپلوسی کرتے ہوئےاپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ مال و اسباب ہوتے ہوئے لاچاری کی زندگی گزارتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا یا پھر سوشل میڈیا ۔ یہ سب چند سکّے حاصل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر پارہے ہیں۔ سوشل میڈیا تو اپنے دل کی بھڑاس مٹانے کے کام میں آرہا ہے۔ جس کو جو جی میں آرہا ہے، کر رہا۔ ویڈیو بنا رہا اور پھیلا رہا ۔ ضرورت کے مشکل سے دس فیصد اور بلا ضرورت اور دل آزاری کے نوے فیصد۔ حالات بہتر کیسے ہو سکتے ہیں؟
رابطہ : 9811742537

Leave A Reply

Your email address will not be published.