صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

وسیم رضوی کون پیدا کرتا ہے؟

86,495

ممتازمیر

 

 اگست ۲۰۱۰ میں ہمیں ایک دوست نے بتلایا کہ انجمن اسلام(بمبئی) کی جونیئر کے جی کی کرافٹس نوٹ بک میں سر ورق کے پیچھے سلمان رشدی کی تعریف و توصیف ہے۔ہم اس وقت بمبئی میں مقیم تھے۔یہ کرافٹ نوٹ بک بنانے والے کی شرارت تھی۔ہم نے کوشش کی کہ صدر انجمن اس نوٹ بک کو واپس لے لیں۔مگر معلوم نہیں کیوں وہ نوٹ بک واپس نہ لی گئی۔۵۱دن کے انتظار کے بعد ہم یہ معاملہ اردو ٹائمز لے گئے۔ مدیر محترم نے ہمارے دوست جو کہ ان کے بھی دوست تھے،کو براہ راست فون کیا اور انھیں original نوٹ بک کے ساتھ بلایا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس معاملے کی شاہ سرخی بنائی جائے۔ مگر وہ شاہ سرخی تو کیا اسے معمولی خبر بھی کبھی بنا نہ پائے۔ مگر ہم اس معاملے کے پیچھے لگے رہے۔

شہر کے تمام بڑے اخبارات تک یہ معاملہ لے گئے مگر کسی کے دل میں حب رسول نہ جاگا۔ پھر ایک ہفت روزہ اخبار ”جسارت جدید“ جس کے مالک و مدیر ہمارے دوست تھے، نے یہ معاملہ شائع کرنا شروع کیا۔ اور وہ بذات خود ایک ایک کاپی عمائدین شہر تک پہونچانے لگے۔یہ معاملہ کئی مہینوں چلا۔کئی مہینوں تک انجمن اسلام کی غفلت کی کہانی اخبارات میں آتی رہی۔ ہر بڑے مقامی لیڈر اور عالم دین تک اخبار پہونچایا جاتا رہا۔ یہ وہ وقت تھا جب بین الاقوامی سطح پر توہین رسالت کے واقعات تواتر سے پیش آرہے تھے۔ایسے میں سڑی گلی دینی لیڈر شپ کو ابال آنا فطری بات تھی۔

اپنے آپ کو چمکانے کا لائم لائٹ میں لانے کا سنہری موقع تھا،سو مارچ یا اپریل ۲۰۱۱ میں اردو مرکز بھنڈی بازار میں ان واقعات کے سلسلے میں ایک میٹنگ رکھی گئی جس میں قرب جوار کے تمام نام چین علمائے کرام کو مدعو کیا گیا تھا۔ ایک گھنٹے تک اس پر بحث ہوتی رہی کہ شاتم رسول کی سزا کیا ہونی چاہئے؟ ایک گھنٹے بعد یہ متفقہ فیصلہ لیا گیا کہ شاتم رسول کی سزا موت ہونی چاہئے۔ تو چلئے ایک میمورنڈم تیار کریں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ توہین رسالت کرنے والے کے لئے موت کی سزا کا قانون بنائے۔ ہم بھی حاضر تھے وہاں ضبط سخن ہونہ سکا۔

ہم نے پوچھا کہ یہ قانون غیروں کو سزا دینے کے لئے ہوگا یا اپنوں کے لئے بھی؟ کہنے لگے کہ جو بھی توہین رسالت کا مرتکب ہوگا۔ ہم نے کہا کہ کئی مہینوں سے ”ایک اپنے“ کاایسا ہی معاملہ ہم اخبار کے ذریعے اجاگر کر رہے ہیں تو کسی کے کانوں پر جو ں کیوں نہیں رینگ رہی ہے؟ تمام علما نے بیک آواز کہا کہ ہمیں تو معلوم نہیں۔ اب جسارت جدید کے ایڈیٹر جو ہمارے ساتھ ہی اس محفل میں شریک ہوئے تھے کھڑے ہوئے اور ایک ایک عالم دین کو ان الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے،او مولانا آپ کو گھر پر ، فلاں جگہ اخبار نہیں دیا تھا۔

اس طرح انھوں نے اس میٹنگ میں موجود کم وبیش ہر عالم لیڈر کی بولتی بند کردی تھی، اور بولتی کیوں نہ بند ہوتی۔ کسی کا بھائی کسی کا بھتیجہ کسی کا سالا کسی کا داماد انجمن کے ٹکڑے کھا رہا ہے۔ پھر ان علمائے دین کواپنے چھوٹے چھوٹے پروگراموں کے لئے بھی انجمن کے ہال، گراؤنڈ فری میں چاہئے ہوتے ہیں۔ کون صدر انجمن کی ناراضگی مول لے گا۔ ٹکے ٹکے پر بک جانے والے علمائے کرائم کی قوم کا یہ حال نہ ہوگا تو کیا ہوگا۔اور قوم نے بچشم سر دیکھ لیا کہ نسل کشی کا چیلنج ایک ناچنے گانے والے نے قبول کر کے اصلی ہیرو ہونے کا ثبوت دیا اور ہمارے قال اللہ وقال الرسول کا ورد کرنے والے،پیشانی پر سجدوں کا داغ سجا کر قوم کو بے وقوف بنانے والے منہ میں گھنگنیاں ڈالے خاموش بیٹھے رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قوم کے نیست ونابود ہو جانے کے بعد بھی انھیں اپنی مسندوں کے بچ جانے کا یقین ہے۔

اس میٹنگ کے بعد شہر کے کئی صحافیوں، ادیبوں، دانشوروں نے ہم سے ملاقاتیں کی مگر زیادہ تر وہ لوگ تھے جو انجمن کی روٹی کھا رہے تھے۔ ایک دانشور نے تو اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ اگر ہم سے ایسی غلطی سرزد ہوتی تو چوراہے پر بیٹھ کر لوگوں سے کہتے کہ ہمارے سر پر جوتے ماریں۔ ہم خود بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اس غلطی کی تلافی اسی طرح ممکن ہے۔ یہی سب باتیں ہیں جس کی وجہ سے اب اکثر وہ لوگ جو علما سے آزاد ہو کر دین کا مطالعہ کر رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ دین وملت کو برباد کرنے والے ہمارے علما ہیں۔

   مئی ۲۰۱۱ میں مدیر اردوٹائمز جناب عالم نقوی اپنے وطن لکھنؤ منتقل ہوگئے۔ ہم بھی اسی سال ستمبرمیں اپنے آبائی وطن آکر بس گئے۔ عالم صاحب نے لکھنؤ میں روزنامہ اودھ نامہ جوائن کر لیا تھا۔ وہ ہمیں روزانہ اودھ نامہ بھیجتے جو ہمیں ہفتے میں ۳/۴ دن میسر آجاتا۔ اودھ نامہ پڑھتے ہوئے ہم پہلی بار شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی سے واقف ہوئے تھے۔ پھر ۲۰۱۱ سے لے کر چند دنوں پہلے تک حکومتیں بدلتی رہیں وزارتوں کے وزرا بدلتے رہے مگر یہ صاحب نہیں بدلے۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں اس کرسی سے چپکانے والے اعظم خان صاحب تھے۔ مگر یہ ان کا کمال تھا جادو تھا یا چمتکار تھا کہ یہ سیکولر حکومتوں میں بھی کرسی سے چپکے رہے اور کٹر فرقہ پرست حکومت کے بھی گلے کا ہار بنے رہے۔ اسے کہتے ہیں گرو گڑ اور چیلے کا شکر ہونا۔ اعظم خان صاحب کے تو زندگی کے بھی لالے پڑ گئے تھے۔ بہر حال اس معاملے میں تو وہ قابل تعریف ہیں کہ چیلے کا طریقہ اپنا کر انھوں نے اپنے آپکو خاندان کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ قریب ایک دہائی تک شیعہ وقف بورڈ کا ناپسندیدہ چیئرمین ہونے کے باوجود نہ قوم نے وسیم رضوی کے خلاف کسی طرح کی تحریک چلائی نہ احتجاج کھڑا کیا۔ بس اخبارات میں بیان شاید خانہ پوری کے لئے آجاتے تھے۔ تو ایسے بیانات جس سے زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد توہر ایرے غیرے کے خلاف آتے رہتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا ماہر فن اپنے مذہب سے بیزار ہو کر ہندو کیوں بن گیا؟ ہوتا یہ ہے کہ جب آدمی حرام مال کماتا اور جمع کرتا ہے، بدعنوانیاں کرتا ہے،ارب پتی کھرب پتی بنتا ہے تو ہماری قوم اسے روکنے کے بجائے اس کا جے جے کار کرتی ہے۔ اپنے پروگراموں میں اسے کبھی صدر تو کبھی مہمان خصوصی بناتی ہے۔ وہ غرور کے آسمان پر چڑھتا چلا جاتا ہے۔ اپنے کارناموں پر شرمندہ ہونے کی بجائے اسکی دن دونی رات چوگنی ترقی میں لگا پڑتا ہے۔ مگر پھر اللہ اس کی رسی کھینچتا ہے۔ اسے دن میں تارے نظر آتے ہیں۔ جیل کی سلاخوں اور موٹے جھوٹے کپڑوں کے خواب آتے ہیں۔ جن آسائشوں میں اب تک اس کی زندگی گزری ہوتی ہے اس کے ہوتے اس میں طاقت نہیں ہوتی کہ جیل کی صعوبتوں کو انگیزکر سکے۔ پھر وہ اعظم خان بننے کے بدلے وسیم رضوی بن جاتا ہے۔

مسلمانوں میں چھوٹے بڑے وسیم رضوی پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جب انسان بدعنوانیوں میں بدمعاشیوں میں ملوث ہوتا ہے اور اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہوتا تویہ بالکل فطری چیز ہے کہ پھر وہ دھیرے دھیرے دین سے دور ہوتا جاتا ہے۔اسی طرح پچھلے چند سالوں میں مدنی چچا بھتیجوں کا عمل بھی دیکھ لیں۔ یہ تو نسلوں سے کانگریس پریم میں مبتلا ہیں مگر بی جے پی کے آتے ہی ان کے سُر بھی بدل گئے۔ کیوں؟ مولانا غلام محمد وستانوی پر کانگریس دور میں سرسوتی پوجا کا الزام لگا تھا۔ ہندوستان بھر میں ہر جگہ کم وبیش اس طرح کے لوگ بھرے پڑے ہیں۔ آخر اتنے بڑے لوگ اپنی امیج کو لات مار کے ایسے کام کرتے کیوں ہیں؟ اس کی وجہ ہم ہیں، ہم عوام۔ جب احتساب کا وقت ہوتا ہے ہم اپنے ذراذرا سے مفادات کی خاطران کے ”گناہ کبیرہ“ کو نظر انداز کر کے انھیں سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں۔ صحابہء کرامؓ اور خلیفہء ثانی حضرت عمر فاروق کی طرح تنقید و احتساب کی جگہ ہم ان کی برائیوں کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ پھر مرض ناقابل علاج ہوجاتا ہے۔ تب وسیم رضوی جنم لیتے ہیں۔ اور ہم تھو تھو کرتے ہیں ۔

 7697376137مضمون نگار سے رابطہ کیلئے موبائل نمبر :

Leave A Reply

Your email address will not be published.