صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

ہندوستان یا چین  بہتر پوزیشن میں کون، ڈوکلام اور گلوان میں کیا فرق ہے؟

64,871

شوبھم کشور

انڈیا چین سرحد پر وادی گلوان میں ہونے والے تنازعے کے درمیان بہت سارے لوگ اس کا موازنہ سنہ 2017 میں ڈوکلام میں ہونے والی جھڑپ سے کر رہے ہیں۔ ڈوکلام میں انڈیا اور چین کی افواج 73 دنوں تک آمنے سامنے تھیں۔ لیکن پھر بھی کشیدگی پر تشدد نہیں ہوئی۔اُس وقت کی صورتحال کو بھی جنگ کی صورتحال کے طور پر بیان کیا گیا تھا لیکن دونوں ممالک نے اسے مذاکرات سے حل کرلیا تھا۔ لیکن اس بار سرحد پر صورتحال کسی حد تک پرتشدد ہوگئی۔یہی وجہ ہے کہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا دونوں تنازعوں کے درمیان کوئی مماثلت ہے اور یہ کہ یہ موازنہ کتنا صحیح ہے۔آئیے پہلے سب سے پہلے ڈوکلام کا ذکر کرتے ہیں کہ وہاں کیا ہوا تھا۔ڈوکلام ایک متنازع پہاڑی علاقہ ہے جس پر چین اور بھوٹان دونوں اپنا دعویٰ پیش کرتے ہیں۔

مئی سنہ 2017 میں انڈیا نے چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد جون میں رائل بھوٹان آرمی نے ڈیکولا کے علاقے ڈوکلام میں سڑک کی تعمیر کرنے والے چینی فوجیوں کو روکا۔بھوٹان نے نئی دہلی میں قائم چینی سفارت خانے میں اس کے متعلق احتجاج درج کرایا۔ اس کے بعد چین نے انڈین فوج پر سڑک کی تعمیر میں رکاوٹیں ڈالنے کا الزام عائد کیا۔ چین نے کہا کہ سڑک کی تعمیر کا کام ان کے اپنے ہی علاقے میں ہو رہا ہے۔انڈیا کی یہ دلیل تھی کہ چین جس سڑک کی تعمیر کرنا چاہتا ہے اس سے علاقے میں دفاعی حساب کتاب بدل سکتے ہیں۔

انڈیا کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کا کہنا ہے کہ یہ دونوں معاملے بالکل مختلف ہیں۔ ڈوکلام ایک مقامی مسئلہ تھا، یعنی یہ صرف ایک علاقے تک محدود تھا۔ چینی چاہتے تھے کہ وہ سڑک بنائیں، ہم یہ نہیں چاہتے تھے۔ معاملہ بالکل واضح تھا۔ 73 دنوں تک کشیدگی کے بعد بھی کوئی پر تشدد واقعہ نہیں ہوا۔ اس بار چین کی طرف سے تمام پروٹوکول توڑ دیئے گئے۔ بہت تشدد ہوا تھا۔ چین کی جانب سے جس طرح کی جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی مقامی حادثہ نہیں ہے بلکہ اس کی منصوبہ بندی بڑی سطح پر کی گئی ہے۔‘

ڈوکلام کے تنازعے میں انڈیا اور چین کے علاوہ بھوٹان کا بھی کردار تھا۔دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر سوورن سنگھ نے کہا:ڈوکلام اور گلوان کے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ ڈوکلام میں تنازع مثلث نما تھا۔ اس تنازعے میں انڈیا اور چین کے علاوہ بھوٹان بھی شامل تھا۔ اس وقت انڈیا کو یہ بھی ذہن میں رکھنا تھا کہ بھوٹان انڈیا کے رویے کو کس طرح دیکھتا ہے۔ لیکن یہاں (گلوان) میں اس کا آمنا سامنا براہ راست ہے۔

ہوڈا کے مطابق ڈوکلام میں انڈین فوج بہتر پوزیشن میں تھی۔ وہ کہتے ہیں: لداخ کے علاقے اونچائی پر ہیں لیکن ڈوکلام کے مقابلے میں وہان زمین زیادہ چپٹی یا مسطح ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ چینی فوجیوں کو بلندی کا فائدہ ہوا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ کچھ علاقوں میں وہ شروع میں ہی زیادہ دباؤ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ہوڈا نے مزید کہا: ڈوکلام میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ بالکال ہماری ناک کے نیچے تھا۔ ہم دیکھ سکتے تھے کہ وہ سڑک بنا رہے ہیں اور ہم نے ان سے رکنے کے لیے کہا۔ لیکن اس بار وہ منصوبہ بندی کے ساتھ آئے تھے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انھوں نے ہمیں حیران کردیا۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ تناؤ بڑھتا ہے اور پھر معاملات سفارت کاری کی سطح پر ہونے لگتے ہیں لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ڈوکلام اور لداخ میں ہونے والے تنازعات کو سمجھنے کے لیے دونوں مقامات کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔

سوورن سنگھ کا کہنا ہے کہ ڈوکلام کا پس منظر مختلف ہے۔ ڈوکلام کا پس منظر بہت مثبت تھا۔ ہم جانتے تھے کہ اس سے پہلے بھی کشیدگی ہوئی تھی اور جسے ہم نے بات چیت کے ذریعے حل کر لیا تھا۔ڈوکلام کا مطمح نظر مختلف تھا کیونکہ اس وقت ہم ایک اس تیسرے ملک بھوٹان کی حمایت کر رہے تھے۔ ہم اس زمین پر تعمیراتی کام کے سلسلے میں مختالفت کر رہے تھے جس پر چین اور بھوٹان اپنا اپنا دعوی پیش کرتے ہیں۔انڈیا کا موقف یہ تھا کہ اگر مستقبل میں کشیدگی بڑھتی ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ چینی فوجی انڈیا کی سلیگوری راہداری پر قبضہ کرنے کے لیے ڈوکلام کا استعمال کرسکتے ہیں۔سلیگوری کوریڈور انڈیا کے نقشے میں ایک مرغی کی گردن جیسا علاقہ ہے اور یہ شمال مشرقی انڈیا کو باقی انڈیا سے جوڑتا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خوف خیالی ہے۔چین نے اسے ڈوکلام میں انڈین فوج کی جانب سے دراندازی قرار دیا تھا۔

یہاں دونوں ممالک ایک دوسرے پر اپنے علاقوں میں تجاوزات کا الزام عائد کررہے ہیں۔ وادی گلوان متنازع علاقے اکسائی چین میں ہے۔ گلوان وادی لداخ اور اکسائی چین کے درمیان ہند چین سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہاں لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) نے اکسائی چین کو انڈیا سے الگ کردیا۔انڈیا اور چین دونوں اکسائی چین پر اپنا اپنا دعوی پیش کرتے ہیں۔ یہ وادی چین میں جنوبی سنکیانگ اور انڈیا میں لداخ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ علاقہ انڈیا کے لیے اسٹریٹجک لحاظ سے انتہائی اہم ہیں کیونکہ یہ پاکستان، چین کے سنکیانگ اور لداخ کی سرحدوں سے متصل ہے۔

یہاں تک کہ سنہ 1962 کی جنگ کے دوران بھی دریائے گلوان کا یہ علاقہ جنگ کا ایک اہم مرکز رہا تھا۔ اس وادی کے دونوں اطراف کے پہاڑ فوج کو عسکری فائدہ دیتے ہیں۔ جون کی گرمی میں بھی درجہ حرارت صفر ڈگری سے کم رہتا ہے۔ مورخین کے مطابق اس جگہ کا نام ایک عام لداخی شخص غلام رسول گلوان کے نام پر رکھا گیا تھا۔ غلام رسول ہی نے اس جگہ کو دریافت کیا تھا۔انڈیا کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انڈیا گلوان وادی میں اپنے علاقے میں ایک سڑک بنا رہا ہے جسے چین نے روکنے کے لیے کہا ہے۔ دربوک- شیوک- دولت بیگ قدیمی روڈ انڈیا کو اس علاقے میں ایک بڑی سبقت دیتی ہے۔ یہ سڑک قراقرم درے کے قریب تعینات فوجیوں کو رسد کی فراہمی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ تنازعے کے پس پشت کوئی واحد وجہ نہیں ہے۔

وادی گلوان کے بارے میں حکومت ہند نے دعوی کیا ہے کہ ایل اے سی کے قریب چین تعمیراتی کام کر رہا تھا۔ وزیر اعظم کے دفتر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جہاں تک ایل اے سی کی خلاف ورزی کا تعلق ہے وادی گلوان میں 15 جون کو تشدد ہوا کیونکہ چینی فوجی ایل اے سی کے قریب کچھ تعمیراتی کام کر رہے تھے اور انھوں نے اسے روکنے سے انکار کردیا۔

گذشتہ ہفتے بی بی سی کے ساتھ بات چیت کے دوران سابق میجر جنرل اشوک مہتا نے لائن آف ایکچول کنٹرول کے ساتھ مبینہ طور پر چین کی سرگرمیوں میں اضافے کی وجوہات ‘پلوں اور ہوائی پٹیوں کی تعمیر کو قرار دیا جس کی وجہ سے انڈین گشت میں اضافہ ہوا۔ ان کے بقول اس کشیدگی کے پس پشت ایک دوسرے سے منسلک بہت سے معاملات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب انڈیا نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور دو نئے مرکزی علاقوں کے نقشے جاری کیے تو چین اس بات سے خوش نہیں تھا۔ ڈوکلام میں تنازعہ 73 دن تک جاری رہا لیکن ڈپلومیسی کی سطح پر طے پا گیا اور سرحد پر کوئی پر تشدد واقعہ نہیں ہوا۔

موجودہ صورتحال کے بارے میں ہوڈا کا کہنا ہے کہ ہم امید کر رہے ہیں کہ یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے حل ہوجائے گا، لیکن یہ آسان نہیں ہوگا۔ کیونکہ جس طرح سے چین نے دراندازی کی کوشش کی ہے، جس طرح کی تیاری کے ساتھ وہ آئے ہیں، یہ کوئی آسان سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ لیکن میں یہ بھی نہیں سوچتا کہ چین کسی بھی طرح کی بڑی لڑائی چاہتا ہے۔ ابھی اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ گفتگو کس سمت جاتی ہے ۔ (بی بی سی کے شکریہ کے ساتھ)

Leave A Reply

Your email address will not be published.