صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

ملک میں آج بھی مودی لہر قائم ہے : امیت شاہ

    شیوسینا سے اختلاف اور وزیر اعلیٰ کے عہدے کا موضوع اب مسئلہ نہیں ہے!

1,714

عارِف اگاسکر

’’ آئندہ عمل میں آنے والے لوک سبھا انتخا بات کے پیش نظر مر کز میں دو بارہ بی جے پی کی سر کار بنا نے کے لیے آر ایس ایس ، بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔مختلف تنازعات میں گھر نے کے باوجود بی جے پی اور خود نریندر مودی چاہتے ہیں کہ دہلی کے اقتدار پروہ دو بارہ قابض ہوں تاکہ اپنے ادھورے ایجنڈے کو پورا کیا جاسکے۔ مرکز میں دوبارہ نر یندر مودی سر کار کےقیام کے لیے وزیراعظم نریندر مودی کے دست راست اور پارٹی کے قومی صدر امیت شاہ دن رات محنت کر رہے ہیںاور پارٹی کو مزید تقویت عطا کر نے کی کو شش میںمصروف ہیں۔ پچھلے دنوں لوک مت نیوز نیٹ ورک کے صحافی سنتوش شاہ نےامیت شاہ کاایک خصوصی انٹرویو کیا  تھاجسے مراٹھی روزنامہ لوک مت نے۷؍ اپریل کے شمارہ میں شائع کیا ہے۔اس انٹرویو میں امیت شاہ نے ہندو توا، رام مندر کی تعمیر، کسانوں کے مسائل،کانگریس، راہل گاندھی، سرجیکل اسٹرائک، پلوامہ حملہ، اور جموں کشمیر سے دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے کو ہٹانے کے تعلق سے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ہم اس انٹر ویو کے کچھ حصے اردو قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ ‘‘

امیت شاہ سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو کتنی سیٹیں حاصل ہوں گی ؟ تو امیت شاہ نے کہا کہ قبل از انتخابات کچھ کہنا مشکل ہے۔ انتخابات جس حالت میں ہیں، اس سے ایسا اند ازہ لگانا ٹھیک نہیں ہے۔لیکن ملک کے ماحول کو دیکھنے پر ایسا محسوس ہو تا ہے ہے کہ بی جے پی کو اکثیریت حاصل ہو گی۔انتخاب کے اعلان سے قبل وہ پورے ملک کا دورہ کر چکے ہیں۔اس دورہ کے دوران انہیں ایسا محسوس ہوا کہ عوام دو بارہ نر یندر مودی کو منتخب کر نے میں دلچسپی رکھتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ مہاراشٹر میں شیو سینا اور بہار میں نِتیش کمار سے اتحاد کر نے سے ہماری حالت بہتر ہو گئی ہےاور ہمیں استحکام حاصل ہوا ہے ۔ اتر پر دیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سما ج پارٹی متحدہ محاذ کے خلاف بی جے پی ۵۰؍ فی صد سیٹوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔ہم نے۲۰۱۴ءاور ۲۰۱۷ء کے انتخابات میں ۴۰؍ فی صد سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔جب دو پارٹیوں میں اتحاد ہو تا ہے تب ووٹ بینک متحد ہو تا ہےاور ایک پارٹی کے ووٹ دوسری پارٹی کو حاصل ہو تے ہی ہیں، ایسا نہیں ہے؟اب کی بار مودی لہر کو دیکھتے ہوئے تینوں ریاستوں میں ہم بڑی کامیابی حاصل کریں گے۔اُڑیسہ ، بنگال اور شمال مشرق کی تین ایسی ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی کافی مضبوط ہے ۔کیرل، کر ناٹک، آندھر پردیش اور تلنگانہ  میں بی جے پی کی حالت پہلے کے مقابلہ میں کافی بہتر ہوگی۔

کِرٹ سو میا کا ٹکٹ کٹ جانے کے تعلق سے ان سے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ سو میا کوٹکٹ نہ دینا بی جے پی کا فیصلہ تھا شیو سینا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ شیو سینا سے اختلاف ہو تا تو میرا پر چہ نامزدگی داخل کر نےکے دوران ادھو ٹھاکرےکیوں آتے؟ کیا انتخابات کے بعد وزیر اعلیٰ شیو سینا کا ہو گا؟ اورودھان سبھا کے لیے دونوں میں پچاس پچاس فی صد سیٹوں سمجھوتہ ہوا ہے؟اس سوال کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ پریس کانفرنس کے دوران ہم نے متحدہ محاذ کی تمام شرائط کا اعلان کیا ہے۔ اس لیے ایسا نہیں لگتا کہ اب دونوں کے مابین کوئی اختلاف ہے۔وزیر اعلیٰ کے عہدےکے لیے دیو ندر فڈ نوس کا نام لینے پر انہوں نے کہا کہ فی الحال مودی ہی ہمارےوزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار ہیں، شیو سینا سے ہمارا اختلاف نہیں ہے۔تاہم وزیر اعلیٰ کے عہدے کا موضوع فی الحال ایجنڈے پر نہیں ہے۔وردھا میں نریندر مودی کی ریلی میں لوگوں کی موجودگی کم ہو نے کے تعلق سے پو چھے گئے سوال پر امیت شاہ نے گول مول جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہے لو گوں کا جوش بہت ہے۔ہم ایک ایک سیٹ کے لیے ریلی کر رہے ہیں۔دو نوں ریلیوں میں فرق ہو تا ہے۔انتخاب سے قبل ریلی ہوئی اور آپ کہتے ہو وہ مقامی جلسہ تھا۔

آپ نے ۷۵؍ سال سے زائد عمر والوں کو ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے ،کیا اڈوانی کا دور ختم ہوگیا۔۔۔۔؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی کا بھی دور ختم نہیں ہوا ہےاڈوانی جی سنیئر لیڈر ہیں۔ پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ۷۵؍ سال سے زائد عمر کے لیڈران پارٹی کے لیے انتخابات میںپارٹی کو متحد کر نےکا کردار ادا کریںگے۔ کیااڈوانی راجیہ سبھا میں نظر آئیں گے اس سوال کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ پارٹی کا پارلمینٹری بورڈاس کا فیصلہ کر ے گا۔ پرینکا فیکٹر پر پو چھے گئے سوال پر امیت شاہ نے کہا کہ پرینکا واڈرا بارہ سال سے سیاست میں ہیں۔ہر مر تبہ وہ پر چار کر تی ہیں اس کے باوجود انتخاب میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔

سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اچھے دن کے بجائے ہندو توا کا اعلان کیوں؟ یہ راہل اورپرینکا کے مندر جانے کا اثر ہے یا بی جے پی کو یہ لگتا ہے کہ ہندو توا پر ہی انتخابات جیتے جا سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور ثقافتی قو میت، جسے آپ نرم ہندو توا کہتے ہو، دونوں میں یکسانیت ہے۔ ہماری کو شش ہے کہ ہر شہری کی زندگی بہتر بنائی جائے،ہم نے ۶؍ کروڑ افراد کو گیس سلینڈر فراہم کیے ہیں، ۸؍کروڑ لوگوں کے لیےبیت الخلاء تعمیر کروائے، ڈھائی کروڑ لوگوں کو مکان فراہم کیے،۲ء۳۵ کروڑ لوگوں کو بجلی فراہم کی ۱۴؍ کروڑ لوگوں کومُدرا یو جنا کے تحت بینک سے قرض فراہم کرایا،۵۰؍ کروڑ لوگوں کو آیو شمان بھارت یو جنا کا فائدہ پہنچایا۔کانگریس اپنے انتخابی منشورمیں افسپامنسوخ کر نے کا ایجنڈہ لاتی ہے اور عمر عبد اللہ کہتے ہیں کہ کشمیر کا وزیر اعظم دوسرا ہوگا۔ملک کے تحفظ میں فوج کے لیے جب تک ضرورت ہے تب تک افپسا قائم رہے گا۔ جموں کشمیر کے ۳۵؍ اے کے تعلق سے پو چھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جن سنگھ کے دور سے دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے ہمارے ایجنڈے پر تھا اور اس وقت بھی رہے گا۔

گَو ہتیاکے تعلق سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ بی جے پی کے ایجنڈے پر گَو ہتیاکےتعلق سے کوئی قانون نہیں تھا۔ شمالی مشرقی رِیاستوں کے علاوہ جہاں جہاں ہماری سر کاریں ہیںسب جگہ گَو ہتیا پر پابندی عائد ہے۔رام مندر کے تعلق سے پو چھے گئے سوال پر پر انہوں نے کہا کہ رام مندر کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔ بی جے پی اسی جگہ پر جلد ہی عالیشان رام مندر کی تعمیر چاہتی ہےاور یہ ہماراوعدہ ہے۔اس تعلق سے عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔کسانوں کے تعلق سے پو چھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ وعدہ کون کر تا ہے اس پر مذکورہ معاملہ کا انحصار ہے۔نہرو اوراندرا گاندھی نے غریبی ہٹانے کا اعلان کیا تھا،راجیو گا ندھی اور سو نیا گاندھی نے بھی اس کا اعلان کیا تھا اور اب راہل گاندھی بھی غریبی ہٹانے کا اعلان کر رہے ہیں۔پانچ پیڑھیوں سے وہ غریبی کو ہٹا نہیں سکے ہیں۔ ہم نے پانچ بر سوں میں غریبوں کی زندگی میں بڑی تبدیلیاں لائی ہیں ۔

بی جے پی نے کسی مسلم کو ٹکٹ نہیں دیا ہے اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی جانکاری کے مطابق مختار عباس نقوی نے پچھلی بار انتخاب نہیں لڑا تھا، اس لیے انہیں ٹکٹ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟شاہ نواز حسین نے انتخاب لڑا تھا لیکن اس مر تبہ وہ سیٹ متحدہ محاذ کے سبب معاون پارٹی کو حاصل ہوئی ہے۔ہم ہندو مسلم کے نام پر فیصلہ نہیں کر تے۔او ر اس سے قبل بھی زیادہ سیٹیں نہیں دی ہیں۔کسانوں کے مدعے پرپو چھے گئے ایک سوال کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ ملک میں ۱۲؍ کروڑ سے زائد کسانوں کو مو بائل پر سیدھے ۶۰۰۰؍ روپے منتقل کیے گئے ہیں، اس سے زیادہ بہتر کوئی کام ہو نہیں سکتا۔بی جے پی اور یو پی اے متحدہ محاذ کے گیہوں اور دھان خرید کے اعداد و شمار دیکھئے، کئی گنازیادہ اناج کی خریداری بی جے پی سر کارنےکی ہے۔۱۴؍ کروڑ لو گوں کو مُدرا یو جنا کے تحت قرض حاصل ہوا ہے، کیا اس سے کوئی روزگار پیدا نہیں ہوا ہے؟

راہل گاندھی دو سیٹوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں اس پر آپ تنقید کر رہے ہیں جبکہ نریندر مودی نے بھی پچھلی بار دو سیٹوں پر انتخاب لڑا تھا؟اس سوال کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ نریندر مو دی اور راہل گاندھی کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔مودی جی اتر پر دیش میںعوام کا جوش بڑھانے کے لیے لڑے تھے، نتیجتاً وہاں پر بی جے پی کو ۷۳؍ سیٹیں حاصل ہوئی تھی۔جبکہ بڑودہ سےمودی جی نے اکثیرتی ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔لیکن راہل گاندھی ڈر کردو سری جگہ سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔وائناڈ میں بھی ہماری معاون پارٹیاںانہیں کامیاب ہو نے نہیں دیں گی۔ انتخاب میں راہل گاندھی نے جس طریقہ سے جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے نیز چوکیدار چور ہے کا نعرہ لگا تے ہیں اوردفعہ ۳۷۰؍کو قائم رکھیں گے اور ملک سے غداری کے قانون کو ہٹا نے کی بات کر تے ہیںاس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اس کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ کانگریس پارٹی نے ملک سے غداری کا قانون تبدیل کر نے اورہٹانے کا اعلان صرف اس لیے کیا کہ جے این یو میں جب ملک سے غداری کے نعرہ لگائے گئے تب راہل گاندھی ان کی حمایت میں وہاں گئے تھے جن پر ملک سے غداری کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔آج ان ہی کی حمایت میں کانگریس اپنا انتخابی ایجنڈہ لے کر آئی ہے۔

کانگریس کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران سر جیکل اسٹرائک کس لیے کیا گیا ؟ جبکہ ان کے کچھ لیڈران اس کا ثبوت بھی مانگتے ہیں؟ اس کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ پلوامہ حملہ کا انتقام لینے کی غرض سے سر جیکل اسٹرائک کیا گیا۔اور یہ سر جیکل اسٹرائک بھارت نے اپنے تحفظ کے لیے کیا تھا۔ کانگریس نے اس کے بھی ثبوت طلب کیے ہیں۔ان کے استاد سیم پترو دا کہتے ہیں کہ پاکستان سےبات چیت کی جائے۔جبکہ پورا ملک جوش و خروش سے پٹاخے  پھوڑ رہا تھا،شہید جوانوں کی تصاویر پرپھول نچھاور کر رہا تھا ۔اس وقت راہل گاندھی مایوس نظر آرہےتھےاور کانگریس کے دفتر میں بھی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندا زہ ہوتا ہے۔ان کی پارٹی ملک کے تحفظ کے تعلق سے سنجیدہ نہیں ہے۔جہاں ملک کے تحفظ کا معاملہ ہے، جہاں پاکستان کو جواب دینے کا معاملہ ہےاس وقت نریندر مودی کی قیادت میں بی جے  پی زیرو ٹالرینس سمیت دہشت گردی اور پاکستان کو جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ملک کی حفاظت کے لیے ہم سخت سے سخت فیصلہ کر نے میں بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے یہ ہم نے کر دکھا یا ہے۔یہ ہمت ممبئی حملہ کے بعد کانگریس نے کیوں نہیں دکھائی؟  چوکیدار سےکون خوفزدہ  ہےیہ سب جانتے ہیں ؟اسی وجہ سے یہ تمام لوگ متحد ہوئے ہیں۔

آپ گاندھی نگر کی سیٹ سے انتخاب لڑ رہے ہیں، جہاں سے اٹل جی نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس وقت ۱۳؍ روز ہ سرکار قائم ہوئی۔اڈوانی جی کو رخصت کیا گیا،وہاں سے جو کامیابی حاصل کر تا ہے اس کی سیاسی زندگی خراب ہو جا تی ہے۔۔۔۔؟ اس سوال کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ گاندھی نگر سے ہی اڈوانی جی کی سیاست شروع ہوئی۔انہوں نے ۲۵؍ برس تک وہاں کی نمائندگی کی ہے۔اب تک انہوں نے سیاست کو خیر باد نہیں کیا ہے۔۹۲؍ سال کی عمر میں بھی ان کی صحت بہتر ہے اوروہ پارٹی کی بہتر طرح سے رہنمائی کر رہے ہیں۔ کیا اس انتخاب میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان ودھان سبھا انتخابات کے نتائج کو دو بارہ دہرایا جائے گا؟اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بالکل نہیں؟ یہ انتخابات ملک کے انتخابات ہیںاور ملک میں مودی لہر قائم ہے۔ہم پہلے ہی کئی سیٹیں جیت رہے ہیں اس لیے اگلی سر کار مزید مضبوط ہو گی۔جو اس طرح کا اندازہ لگار ہے ہیںانہیں چاہیئے کہ ان تین ریاستوں میں ہمارے ووٹوں کے فی صد پر غور کریں ۔ ہم بڑی کامیابی حاصل کریں گے۔

کیا بالا کوٹ کی وجہ سے آپ پُر امید ہیںیہ سوال کر نے پر انہوں نے جواب دیاکہ ملک پر حملہ کر نے والوں کو سبق سکھاناسر کار کی ذمہ داری نہیں ہے؟اگر کانگریس کی سر کار کمزور ہوئی تو کیا بی جے پی بھی اس کی تقلید کرے گی؟کیا وزیر اعظم مودی سے ملک کو اس طرح کی امید نہیں تھی؟کیا فوجی، نوجوان اور ہر شہری کی آرزو کے مطابق کام کر نا سرکار کا فرض نہیں ہے؟ہم ملک کی عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ جب کبھی کوئی پلوامہ جیسا حملہ کرے گا انہیں اسی طرح کا جواب دیا جائے گا۔وزیر اعظم مودی کی سر کار نہ ایسا برداشت کر ے گی اور نہ ہی خاموش بیٹھے گی۔دہشت گردی کو نیست و نابود کر نا اور امن قائم کر نا ہمارا فرض ہے۔اس لیے ہم نے پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گر دی کے ٹھکانےتباہ کر دیے۔یہ کوئی فوجی کارروائی نہیں تھی ، اس لیے عام شہریوں کی بستیوں پر حملہ نہیں کیا گیا۔ہم عالمی امن کے حامی ہیںلیکن ہمارا خاموش رہنا ہماری کمزوری نہیں ہے۔کشمیر میں عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی نے ملک سے علیٰحدہ ہو نے کی بات کی ہے اس تعلق سے آپ کا کیا کہنا ہے؟اس پر امیت شاہ نے کہا کہ انہوں نے اپنی پالیسی کا اظہار کیا ہے۔لیکن بی جے پی ملک کو یقین دلاتی ہے کہ ہم اس ملک کو تقسیم نہیں ہو نے دیں گے،سیات سے پہلے ملک ہے۔ ملک کی تقسیم کر نے والوں کو منتخب کروگے یا اس ملک کو متحد ر کھنے والےوزیراعظم نریند ر مودی کو مزید مضبوط حمایت دو گے، اس کا فیصلہ عوام کو ہی کر نا ہے۔

اس انتخاب میں چندرا با بو نائیڈو ، اروند کیجری وال ، ممتا بنرجی، شرد پوار، اکھلیش یادو اور مایا وتی جیسے مخالفین کے متحدہ محاذ کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ عوام جانتی ہے کہ چوکیدار کی مستعدی ، لگن اور چوری نہ ہو نے دینے کی ذمہ داری سے خوفزدہ ہوکر یہ تمام افراد متحد ہو ئے ہیں ۔ دو بارہ پھر سے نریندر مودی ہی وزیر اعظم ہوں گے ، ملک مزید مستحکم اور ترقی کی جانب گامزن ہو گا اور مضبوط سر کار بنے گی ۔ ہم نے لاکھوں ، کروڑوں منصوبے عمل میں لائے ہیں۔صاف صفائی، بیت الخلاء، اُجولا، اُجالا، شاہراہیں، آیوش مان یو جنابغیر کسی الزام کے مکمل کیے ہیںاورجس کی وجہ سے عوام کو استحکام عطا ہواہے ۔ صحافت کے تعلق سے انہوں نے یہ بات کہی کہ زبان کی حفاظت اور آنے والی نسلوں کو اپنی مادری زبان کا تعارف کرانے میں مختلف زبانوں کے اخبارات کا کردار اہم ہے ۔ بی جے پی ہمیشہ کہتی ہے کہ اگر بھارت کو مکمل ترقی کی جانب گامزن کر نا ہے تو ملک کی عوام کی سوچ کو سمجھنا ہو گا اور انہیں سُننا ہو گا اور یہ کام ملک کے مختلف زبانوں کے اخبارات اور میڈیا کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔

[email protected]

Leave A Reply

Your email address will not be published.