صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

بھارت بند میں مارے گئے امریش کمار کے والد نے بتایا ’پولس نے کہا کسی مسلمان کا نام لے دو آٹھ دس لاکھ روپیہ دیں گے‘

مودی /یوگی قومی سلامتی قانون کو منو وادی کوڑے کے طور پر استعمال کررہے ہیں ،لوک سبھا انتخاب میں سیاسی پارٹیاں واضح کریں کہ وہ بھارت بند کے مقدموں کو واپس لیں گی: رہائی منچ

1,816

لکھنو: رہائی منچ نے ۲ ؍ اپریل ۲۰۱۸ کو ہوئے بھارت بند کے دوران جان قربان کرنے والے ۱۳ ؍ نوجوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تحریک میں شامل افراد پر مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔ منچ کے ایک وفد نے پچھلے دنوں مظفر نگر جیل میں قید اُپکار باورا ، وکاس میڈین اور ارجن کے رشتہ داروں سے ملاقات کے بعد قومی سلامتی قانون ہٹانے کا مطالبہ کیا ۔بھارت بند کے دوران مارے گئے امریش کے والد سے ملاقات کے بعد منچ نے رپورٹ جاری کیا ۔ اس دوران وفد نے مظفر نگر کے ہی پُربلیان میں بچوں کے کھیل کھیل میں ہوئے کشیدگی کے معاملہ میں قومی سلامتی قانون کے تحت پابند  کئے گئے خاندانوں سے بھی ملاقات کی ۔

 

قومی سلامتی قانون کے تحت پابند کئے گئے مظفر نگر کے الماس پور گائوں کے اُپکار باورا (۲۶) کے والد اَتَر سنگھ (۵۶) بتاتے ہیں کہ ۲۰۰۹ میں نیم فوجی دستہ سے ریٹائر ہونے کے بعد اب وہ بینک میں ملازمت کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ بہوجن سماج اپنے حقوق کی لڑائی لڑتا ہے تو اس کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے ۔بہوجن سماج سمجھتے ہیں ،یہ پوچھتے ہوئے کہتے ہیں مول نواسی (یعنی اصل اور قدیم شہری) ۔ وہ بتاتے ہیں ۲؍ اپریل کے سانحہ کے بعد چھ مقدموں میں نام آنے پر ۱۲ ؍ اپریل کو اُپکار کورٹ میں پیش ہوا اور ۱۷ ؍ مئی کو اس پر قومی سلامتی کا نفاذ کردیا گیا ۔اس تعلق سے انہوں نے ایم پی ، وزیر اعلیٰ ، صدر جمہوریہ ، قومی حقوق انسانی کمیشن ، گورنر کو خطوط لکھ کر پورے معاملہ سے آگاہ کرایا ۔ اب تک ان کی کہیں کوئی سنوائی نہیں ہوئی اور قومی سلامتی تیسری بار ۱۷؍ فروری کو پھر لگا دیا گیا ۔جبکہ اس دوران مظفر نگر میں ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ اس کو جیل گئے ایک سال ہونے کو ہے ۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ قومی سلامتی قانون کا مطلب یہی ہے نا کہ انتظامیہ میں بدنظمی پیدا کرنا ۔   اس کا مطلب یہی کہ ایک لڑکے سے پولس انتظامیہ و حکومت خوفزدہ ہو گئی ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ قومی سلامتی قانون لگانے سے پہلے تمام اعلیٰ افسران کو وہ خطوط کے ذریعہ باخبر کرچکے تھے ۔یہی نہیں ان سمیت قومی سلامتی قانون میں پابند کئے گئے وکاس میڈین کے والد ایس سی ایس ٹی کمیشن کے صدر رام شنکر کٹھوریا سے بھی ملاقات کی اور بتایا کہ ۲ ؍ اپریل کے بھارت بند کا معاملہ ہے تو وہ بے دلی سے دیکھیں ۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ میرے بیٹے نے اشتعال انگیز بیان دیا ہو ، آگ لگائی ہو ، آخر اس نے کون سا غیر قانونی کام کیا ہے ؟ جو اس کو سماج کیلئے خطرہ قرار دیا گیا ہے ۔ جیل میں وہ کئی دنوں تک بخار میں مبتلا رہا ۔ اس کیلئے بھی ڈی ایم /ایس پی کو درخواست لکھی ،پر کہیں کوئی سنوائی نہیں ہوئی ۔ گذشتہ ۴ ؍ فروری کو میرٹھ میڈیکل اسے بھیجا گیا جہاں نیورو کو دکھانے کیلئے کہا گیا ۔ ۱۱؍ مئی تک اسے اسپتال میں رکھنے کے بعد واپس اسے پھر سے مظفر نگر جیل میں ڈال دیا گیا ۔ بعد جب مرض میں اضافہ ہوا تو ۱۹ ؍ مئی کو جی بی پنت اسپتال دہلی لے گئے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ وکاس اور ارجن کی بھی طبیعت لگاتار خراب چل رہی ہے ۔ اُپکار معلم تھا ، شری رام کالج میں لیب ٹیکنیشین اور آئی ٹی آئی کالج میں بھی معلمی کے فرائض انجام دے چکا ہے ۔

جیل سے مل کر لوٹی اُپکار کی ماں روپیش دیوی کہتی ہیں کہ کل بخار پھر چڑھا تھا ۔ اس کی یہ حالت ہے کہ وہ صحیح سے چل بھی نہیں پارہا ہے ۔ پوچھنے پر کہ کیا اس سے پہلے بھی کبھی اُپکار کو کسی معاملہ میں جیل بھیجا گیا ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ شبیر پور ، سہارنپور میں ہوئے معاملہ کے بعد ۹ ؍مئی کو اسے تب حراست میں لیا گیا جب وہ اپنے دوست ونئے کے ساتھ جارہا تھا ۔ پولس والے آٹو میں آئے اور چمار پوچھتے ہوئے گالی دینے لگے تب اس نے اس کی مخالفت کی اور اسی بات پر اس کو پکڑ لیا گیا ۔ تقریبا ۵۸ ؍ دن اسے جیل میں رہنا پڑا جون کے آخری دن میں وہ جیل سے باہر آیا ۔ ۔ اُپکار سے بات کرتے کرتے جیل میں ملاقات کا وقت ختم ہو گیا اور ان کی ماں ان سے بات نہ کرسکیں تو ہم نے ان سے معافی مانگی تو انہوں نے کہا کہ ہم تو صرف بیٹے کو دیکھنے کیلئے آتے ہیں اسی سے سکون مل جاتا ہے ۔

اُپکار کے والد کہتے ہیں کہ سماجی انصاف ، ریزرویشن اور بہوجنوں کیلئے جد و جہد کی جو آواز وہ اٹھاتے تھے اسی کو اٹھانے کی وجہ سے اُپکار آج یہ سزائیں جھیل رہا ہے ۔ وہ بیٹے کی اس حالت کیلئے خود کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں ۔

مظفر نگر کے کمل نگر محلہ میں چھوٹی سی جنرل اسٹور کی دکان پر بیٹھے قومی سلامتی قانون میں پابند ارجن سنگھ (۲۵) کے والد پورن سنگھ (۶۸) کہتے ہیں کہ وہ ان دنوں غاذی آباد جیل میں ہے ۔ اس کا ہائی اسکول کا امتحان چل رہا ہے ۔ ارجن کی موبائل کی دکان تھی ۔اس دن بازار کھلا تھا اور وہ موبائل کا سامان لینے نئی منڈی کی طرف گیا تھا ۔ وہ جب سامان لینے گیا تو اس کی اسکوٹی میں کسی نے آگ لگادی ۔ اس نے کسی طرح اسکوٹی کو آگ سے بچایا ۔ اسی دوران اسکوٹی کو آگ سے بچاتے ہوئے اس کا فوٹو وہاں موجود کسی میڈیا والے یا دیگر کسی نے لے لیا ۔ اسی فوٹو نے اسے گناہگار بنا دیا ۔ پھر کیا تھا اس پر چھ چھ مقدمہ کردیا گیا اور اب اس کے بعد قومی سلامتی قانون پورے خاندان پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے ۔

ارجن کی ماں دھنوتی بتاتی ہیں کہ پانچ چھ سال پہلے شادی ہوئی تھی اس کی تین لڑکیاں ہیں ۔ وہ بڑے دکھی من کے ساتھ کہتی ہیں کہ جب وہ جیل میں تھا تو تیسری لڑکی ہوئی ۔ ۲ ؍ اپریل علاقہ میں جھگڑا کے بعد تھانے والے پکڑ دھکڑ کرنے لگے ۔ ماحول کو دیکھتے ہوئے دوسرے دن لڑکی کو ہری دوار چھوڑنے دونوں بیٹے گئے ۔۳ ؍ مئی کی رات ساڑھے بارہ بجے یکایک پولس نے شٹر پیٹنا شروع کردیا ۔ ابھی کھولیں اس سے قبل ہی پولس چھت کے راستے اور کچن میں توڑ پھوڑ کرتی ہوئی گھر میں گھس آئی ۔۷۰ / ۸۰ پولس والے تھے ۔ ارجن کو پوچھ رہے تھے ۔ جب یہ بتایا گیا کہ وہ بیٹی کو چھوڑنے گیا ہے تو اس کے والد کو پکڑ لیا اور ذات کو لے کر گالیاں دیتے ہوئے بد تمیزی کی ۔انہیں لے جاکر جیل میں بند کردیا گیا ۔ وہ شوگر کے مریض ہیں ۔ ان سے کسی کو ملنے نہیں دے رہے تھے ۔ بڑی مشکلوں سے ان سے ملنے دیا گیا ۔ چار دنوں تک انہیں کوتوالی میں رکھا گیا جبکہ ہمارا تھانہ نئی منڈی ہے ۔ ۷ ؍ اپریل سات آٹھ بجے نئی منڈی پولس چوکی پر پولس کو سونپ دیا گیا لیکن پولس نے اسے جانسٹھ روڈ سائولی کے نالے کے پاس سے بھاگتے ہوئے گرفتاری کا دعویٰ کیا ۔۷ ؍ سے ۹ ؍ مئی تک اسے تھانے میں ہی رکھا گیا ۔ اسکے بعد اسے جیل بھیجا گیا اور ۴ ؍ جون کو اس کو قومی سلامتی قانون کے تحت پابند کردیا گیا ۔

ارجن کے بھائی ببلو کہتے ہیں کہ پنجاب نیشنل بینک میں توڑ پھوڑ سمیت  تقریبا ۶ مقدمے اس پر لاد دیئے گئے ۔سبھی گرفتار نوجوان پر یہ سارے مقدمے لادے گئے جبکہ ان سبھی ایف آئی آر میں جائے وقوعہ کی حالت الگ الگ ہے ۔ایک ہی وقت میں ایک آدمی چھ مختلف جگہوں پر کیسے رہ سکتا ہے ۔ ڈی ایم راجیو شرما اور ایس پی اننت دیو تیواری سے اپیل کی لیکن کسی نے ایک نہ سنی ۔ ایس ایس پی سٹی اومکار سنگھ نے بلا کر پوچھا کہ کیا چاہتے ہو تو ہم لوگوں نے اپنی بات رکھی اس پر ان کا کہنا تھا کہ سوچیں گے ۔ انہوں نے بتایا کہ ارجن کو دو معاملوں میں ہائی کورٹ سے ضمانت ملی ۔ ایک دن پولس کی گاڑی کئی گھنٹے تک کھڑی رہی ۔ بعد میں ایک سپاہی آیا اور کہا کہ صاحب بلاتے ہیں ۔ وہاں کہا گیا کہ ارجن پر این ایس اے لگادیا گیا ہے ۔ قومی سلامتی قانون کے تحت کارروائی کو لے کر ایڈوائزری بورڈ جو کہ لکھنو میں ہوتا ہے وہاں تحریری طور پر لکھ کر دیا گیا لیکن اس سے قومی سلامتی قانون نہیں ہٹایا گیا ۔

قومی سلامتی قانون کا ایک اور شکار  وکاس میڈین (۲۲) کے والد ڈاکٹر راکیش میڈین کہتے ہیں کہ بیٹے کی گرفتاری کو لے کر انہوں نے ضلع کلیکٹر سے اپیل کی ،۹ ؍ستمبر ۲۰۱۸ کو اس پر قومی سلامتی کا اطلاق ہوا ۔ جیل میں وہ شدید طور سے ٹائیفائڈ سے متاثر ہوا ۔ وکاس میڈیکل اسٹوڈینٹ تھا ۔ ان کے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں میں وکاس سب سے بڑا ہے ۔ ۲ ؍ اپریل کو بھارت بند کے دوران امریش (۲۲) کے قتل پر ان کے والد سریش کمار کہتے ہیں کہ ان کے تین لڑکوں میں درمیانی لڑکا امریش تھا ۔ مزدوری کرکے اپنے خاندان کو پالنے والے سریش بتاتے ہیں کہ اس دن وہ بیمار تھا ۔وہ اور اس کا بڑا بھائی منڈی تھانہ ریلوے اسٹیشن گودام کی طرف سے آرہے تھے ۔ہری شرن شرما داروغہ نے اسے گولی ماری ۔ لیکن انسپکٹر مدن بشٹ نے نامعلوم افراد کیخلاف مقدمہ درج کیا اور دیگر کئی افراد کو جیل بھیج دیا ۔ پولس کا دبائو تھا کہ میں آٹھ دس لاکھ روپیہ لے کر کسی مسلمان کا نام لے لوں ۔ لیکن میں نے یہ تجویز ٹھکرادی کیوں کہ میں سچائی جانتا تھا اور مجھے انصاف چاہئے ۔ اس معاملہ میں از سر نو تفتیش کیلئے ہائی کورٹ گیا اور وہاں سے دو بارہ تفتیش کا حکم ہوا ۔ لیکن پولس نے پھر پولس کو بچایا ۔ اب اس معاملہ کو لے کر مقامی عدالت میں مقدمہ کیا ہے ۔ اس درمیان انہوں نے ایس سی ایس ٹی کمیشن ، حقوق انسانی کمیشن سے شکایت کی ہے پر کہیں سے کوئی تحریک نہیں ہوئی ۔

بھارت بند کے بعد گرفتار کئے گئے مظفر نگر کے نارا گائوں کے رہنے والے آشو چودھری نے بتایا کہ اس دن سب کچھ دستور کے دائرے میں ہو رہا تھا ۔ پولس کے لاٹڑھی چارج نے بھڑکانے کا کام کیا جس کے بعد گرفتاری ہوئی ۔ ۲۰۰ سے زائد افراد پر مقدمے درج ہوئے اور نا معلوم کے نام پر عام لوگوں سے پیسے وصولے گئے ۔ آشو کو گیارہ اپریل کو شام ۶ ؍ بجے فساد کا اہم ملزم کہتے ہوئے اٹھا یا گیا اور اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس نے شراب پلا کر فساد کیلئے لوگوں کو بھڑکایا ۔ وہ پندرہ دن جیل میں رہے انہیں ٹارچر کرنے کی کوشش کی گئی ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ۲ ؍ اپریل کے دن سرکاری میدان مظفر نگر میں کافی لوگ جمع ہو ئے تھے ۔ پولس نے جب ایک لڑکے کو گولی ماری تو اس کے بعد بھگدڑ مچ گئی ۔ اور اس بہانے ۹۵ افراد کو جیل میں ٹھونس دیا گیا ۔ ۴۸ افراد پر ایک ہی وقت میں چار چار ایف آئی آر الگ الگ تھانوں میں درج کی گئی ۔ اس کے علاوہ بھی کئی مقدمے لادے گئے ۔ امریش جو مارا گیا اس کو مارنے کا جھوٹا الزام ایک دیگر شخص پر لگایا گیا ۔

ریاست میں قومی سلامتی کے تحت کی جارہی کارروائی کے تحت پابند کئے گئے افراد خانہ سے مظفر نگر دورہ کے دوران اس وفد نے ملاقات کی ۔ پُربالیان میں ۲۱ ؍ اگست ۲۰۱۸  کو کھیل کھیل میں بچوں کے بیچ ہوئے کشیدگی کے بعد مسلم کمیونٹی پر قومی سلامتی قانون کا اطلاق کیا گیا ۔ آفتاب (۲۸) ولد علی محمد کے چچا زاد بھائی نور محمد اور دادا مہربان سے ملاقات ہوئی ۔ وہ بتاتے ہیں کہ پال سماج کے لوگ اسی دن شام ۵ ؍ بجے رپورٹ کرکے آئے تھے ۔ ۹ ؍ بجے ہم لوگ بھی تھانے گئے ۔ معاملہ نپٹ گیا تھا ۔ ۱۲ ؍ افراد کیخلاف ایف آئی آر درج ہوا تھا ۔ معاملہ پرسکون ہو گیا تھا پر اسی درمیان عابد کو پال سماج کے لوگوں نے پیٹ دیا جس کے بعد ہم لوگ تھانے رپورٹ کرانے گئے ۔ لیکن تھانے جو لوگ گئے انہیں روک لیا گیا ۔ مجاہد بتاتے ہیں کہ شمشیر ، آفتاب اور محبوب کو بٹھالیا اور پھر انہیں اندر لے جا کر بند کردیا گیا ۔ اس میں سابق پردھان سنتوش پال کا کردار اہم تھا ۔ایم پی سنجیو بالیان کے بیان کے بعد پھر پولس آئی اور لاٹھی برسانا شروع کردیا جس میں خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔

گائوں والوں نے بتایا کہ شمشیر (۶۰) ولد سرو م الدین ، آفتاب (۲۸) ولد علی محمد اور یامین (۶۰) ولد سمیع الدین کو قومی سلامتی قانون کے تحت پابند کیا گیا ۔

بھارت بند کو بہوجن یوم عزم کہتے ہوئے لکھنو میں واقع پچھڑا سماج سبھا کے دفتر سے مظفر نگر میں قومی سلامتی کے تحت پابند کئے گئے نوجوانوں کو لے کر رپورٹ جاری کی گئی ۔ مقررین نے کہا کہ جس طرح بھارت بند کے بعد پکڑے گئے افراد پر مودی اور یوگی کی حکومت میں قومی سلامتی قانون کے تحت کارروائی کی گئی ہے ،اس سے واضح ہے کہ حقوق کی بازیابی کی خاطر جب بھی بہوجن سماج سڑک پر آئے گا تو منو وادی حکومت اسے قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے گی ۔سوال کیا گیا کہ آخر ریاست میں دلت اور مسلم پر ہی قومی سلامتی قانون کے تحت کارروائی کیوں کی جارہی ہے ؟ کیا دلت اور مسلمان ہی قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں ؟ لوک سبھا الیکشن میں بھارت بند کے دوران درج کئے گئے مقدموں پر سیاسی پارٹیوں کی خاموشی شرمناک ہے ۔ سیاسی پارٹی اس پر اپنی پوزیشن واضح کریں ۔ اس موقعہ پر احسان الحق ملک ، بانکے لال یادو ، شاہ رخ احمد ، رابن ورما ، شیو ناراین کشواہا ، رجنیش بھارتی ، راجیو یادو موجود تھے ۔ مظفر نگر دورے میں راجیو یادو ، رویش عالم ، ذاکر علی تیاگی اور ابو ذر چودھری شامل رہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.