صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

اردو صحافت کی کالی بھیڑیں !

1,408

ممتاز میر

ممبئی اردو نیوز میں گذشتہ چند ہفتوں سے سنیچر کے کالم شب وروز میں کچھ ایسی تحریریں شائع ہو رہی ہیں جسے پڑھ کر دل کو تکلیف پہونچ رہی ہے اور ایسا اسلئے ہے کہ ہم ممبئی اردو نیوز کو دین پسند اخبار سمجھتے ہیں ۔ ورنہ دنیا میں تو اسلام کے خلاف بہت کچھ چھپتا رہتا ہے کون اس کے پیچھے پڑتا ہے ۔ سنیچر کے اس کالم کو جناب ندیم صدیقی لکھتے ہیں ۔ ندیم صدیقی صاحب کی زندگی روزنامہ انقلاب میں گزری ہے جسے لادین اخبار سمجھا جاتا رہا ہے اور یہ اس وقت جب اس کے مالکین مسلمان ہوا کرتے تھے ۔ اب قریب ایک دہائی سے یہ دینک جاگرن کے قبضے میں ہے جسے سنگھی اخبار سمجھا جاتا ہے ۔ ندیم صدیقی صاحب وہیں کام کرتے ہوئے ریٹائر ہوئے اور قریب ایک دہائی قبل اردوٹائمز میں آگئے ۔ چند سالوں بعد جب اردو ٹائمز کے دو ٹکڑے ہوئے تو یہ ممبئی اردو نیوز کے حصے میں آئے ۔

ندیم صاحب شاعر ہیں اور وہ بھی ترقی پسند جنھیں مرحوم ہوئے دہائیاں گزر گئیں مگر کہتے ہیں جس طرح رسی جل جانے کے بعد بل نہیں جاتے اسی طرح یہ بھی ابھی باقی ہیں ۔ گذشتہ چند سالوں میں جناب نے جو کچھ بھی لکھا اس سے ہم اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے کہ صاحب کی قلب ماہیت ہو چکی ہے اور ظ انصاری اور کیفی اعظمی کی طرح ندیم صاحب بھی آخری وقت میں مسلمان ہو چکے ہیں مگر اب جو کچھ گذشتہ چند ہفتوں سے وہ لکھ رہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ لکھنے کے لئے زمین تیار کر رہے تھے ۔ اور اب شاید فصل تیار دیکھ کر بین السطور اپنا ایجنڈا چلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتا دیں کہ جناب ندیم صدیقی نے لکھا کیا ہے ۔ پہلا کالم ۱۶ مارچ کا ہے ۔ اس کالم میں جناب ندیم صدیقی نے بڑی فنکاری دکھائی ہے ۔ سب سے پہلے جناب نے پنسلین نامی دوا کے موجد الگزنڈر فلیمنگ کی جی بھر کر تعریف کی ہے اور بالکل بجا کی ہے ۔ ہمیں اس پر موصوف سے اختلاف نہیں اتفاق ہے ۔ مگر اپنے اتنے اچھے کالم پر جناب نے آخر میں یہ کہہ کر غلاظت انڈیل دی کہ ’اس تحریر پر ہمارے ہمزاد کا تبصرہ سنا گیا کہ میاں! کچھ بھی ہو فلیمنگ جنت میں نہیں جائے گا ! جنت میں تو ہم ہی جائیں ، ہم‘ ۔ پھر آگے جناب نے قرآن کریم کی ایک آیت کا ترجمہ پیش کیا ہے ۔ ’جس نے نیک کام کیا اس کا اجر اللہ کے پاس ہے‘ ۔ یہ بشارت قرآن میں اور کئی جگہ بھی ہے اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ مگر یہاں ندیم صاحب نے قارئین کو مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے ۔ بلا شبہ ایمان والوں کے نیک عمل کا اجر بھی اللہ کے پاس ہے اور غیر ایمان والوں کے نیک عمل کا اجر بھی اللہ کے پاس ہے ۔ مگر وہ کیا کتنا اور کیسا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا ۔ وہ جنھوں نے ایمان لائے بغیر اس دنیا پر عالم انسانیت پر رسول ﷺ پر احسان کیا اس میں بس ایک نام ہے اور وہ ہے حضرت ابو طالب کا ۔ ان کے لئے بھی حضور ﷺ ان کے آخری وقت تک یہ کوشش کرتے رہے کہ ایمان لے آئیں ، کیوں ؟ سنیوں کے مطابق تووہ جنتی نہیں ۔

دوسرا کالم ۳۰ مارچ کا ہے ۔ جس میں جناب نے ڈاکٹر رائیکر(جو دراصل کمپاؤنڈر ہیں) ڈاکٹر عبدالرشید کھٹکھٹے اور ڈاکٹر ابھیجیت کی بہت تعریفیں کی ہیں ۔ ڈاکٹر رائیکر کے تعلق سے لکھا ہے کہ وہ ملنڈ کے سرکاری اسپتال میں کمپاؤنڈر ہونے کے باوجود شام میں ممبرا میں اپنی ڈسپنسری چلاتے تھے ۔ (یہی کام کوئی مسلمان بغیر سند کے کرتا تو وہ جرم ہوتا) ڈاکٹر کھٹکھتے کے تعلق سے لکھا ہے کہ وہ ایم بی بی ایس تھے مگر فیس صرف ایک روپیہ لیتے تھے ۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ۱۹۶۰ کے زمانے میں صرف ایک روپیہ فیس کم تھی یا زیادہ ۔ ڈاکٹر ابھیجت کے ویڈیو آج کل سوشل میڈیا پر بہت گھوم رہے ہیں ۔ وہ غریبوں کے بلکہ کہنا چاہئے بھکاریوں کے ڈاکٹر ہیں ۔ اور وطن کے بے بس یا کہہ لیں غریبی ریکھا سے نیچے والے لوگوں کی خدمت کررہے ہیں جو بھی ہو ہم ندیم صاحب سے اتفاق رکھتے ہیں ۔ وجہ اختلاف ان کا یہ جملہ ہے ’اب ایک اطلاع اور سن لیجئے کہ ایک پرہیزگار دوست کا کہنا ہے کہ وہ کچھ بھی کرلے مگر ابھیجیت کے لئے تو دوزخ سلگ رہی ہے‘ ۔

یعنی ڈاکٹر رائیکر ، ڈاکٹر ابھیجیت اور الگزنڈر فلیمنگ وغیرہم مجرد اپنے اعمال کی بنیاد پر مومنوں سے بڑھ گئے ۔ انھیں خدا کی وحدانیت اور حضور کی رسالت کے اقرار کی ضرورت نہیں ۔ معلوم نہیں کیوں جناب نے حاتم طائی بل گیٹس اور وارن بوفے کو چھوڑ دیا ۔ خیر ! سوال یہ ہے کہ سورۃالمومن۴۰ کی بنیاد پر مسلمانوں کا یہ جو عقیدہ ہے کہ جنت میں جانے کے لئے کسی بھی شخص کا ایمان والا ہونا ضروری ہے ، کیا غلط ہے؟ ہم یہاں مذکورہ آیت کا ترجمہ دے رہے ہیں تاکہ قارئین خود فیصلہ کر لیں ۔ ’جو برائی کرے گا اس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی ۔ اور جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت ، بشرط یہ کہ ہو وہ مومن ، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہونگے‘ ہمارا سوال ندیم صدیقی صاحب سے یہ ہے کہ یہاں الفاظ ’بشرط یہ کہ ہوں وہ مومن‘ کیوں آئے ہیں ۔

ندیم صدیقی صاحب ! یا تو آپ کو اس آیت کے تعلق سے معلوم نہیں ۔ یا آپ نے دانستہ حق چھپانے کا اور قارئین پر اپنی فکر ٹھونسنے کا کام کیا ہے ۔ بلا شبہ اللہ کے پاس ہر ایک کے نیک کام کا اجر ہے ۔ ایمان والے کے بھی اور بے ایمان کے بھی ۔ مگر کیا ، اسے نہ ان صفحات پر سمجھایا جا سکتا ہے اور نہ وہ ہمارا منصب ہے ۔ کسی بھی عالم دین سے پوچھ لیں وہ سمجھا دے گا ۔

اب مسئلہ یہ کھڑا ہوتا ہے کہ ان دو کالموں میں جناب ندیم صدیقی نے اسلام پر طبع آزمائی کی کوشش کی کیوں ہے ؟ کہیں وہ شاعر اور کالم نگار ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجدد ہونے کا دعویٰ ٹھونکنے کی تیاری تو نہیں کر رہے ہیں ۔ کیونکہ آجکل مسلمانوں کے درمیان مہدیوں کی برسات ہو رہی ہے ۔ بہر حال ان کے تعلق سے ہمیں ایسا گمان نہیں ہے ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے دنیا کے سب سے بڑے سائنٹسٹ اسٹیفن ہاکنگ کا انتقال ہوا تھا ۔ ساری دنیا کے لکھاریوں نے اسے خراج عقیدت پیش کیا تھا ۔ محترم عالم نقوی نے اپنے مضمون میں اسے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس افسوس کا اظہار کیا تھا کہ دنیا کا عقلمند ترین آدمی ، ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا ، ستاروں کے خالق کو نہ ڈھونڈ سکا ، اس کا ادراک نہ کر سکا ۔ ایک موہوم سا خیال یہ ہے کہ اس مضمون نے جناب کے کمیونسٹ ذہن میں اتھل پتھل مچا دی ہو اور انھیں خود اپنی فکر پڑ گئی ہو ۔ اس دور کا المیہ یہ ہے کہ آدمی اندر سے کتنا ہی بے دین ہو ظاہر یہی کرتا ہے کہ وہ بڑا دیندار ہے ۔ حج و عمرہ کے فیشن بننے کا سب سے بڑا سبب یہی ہے ۔

یادش بخیر ! اپریل ۲۰۱۱ میں ہم نے محترم عالم نقوی کے ایک مضمون پر تنقید کی تھی ۔عالم صاحب کو تو اتنی بری نہ لگی تھی(کیونکہ انھوں نے اسے شائع کیا تھا) جتنی جناب ندیم کو لگی تھی ، اوراس کے باوجود لگی تھی کہ ندیم صاحب کو اس واقعے کے سیاق و سباق کا کچھ پتہ نہ تھا اورانھوں نے یہ اعلان فرمایا کہ اب عالم صاحب کے جانے کے بعد ممتاز میر کے مضامین اردو ٹائمز میں شائع نہ ہونگے (عالم صاحب ۲۶ اپریل سے اردو ٹائمز چھوڑ رہے تھے) اب ایسا لگتا ہے کہ وہ عالم صاحب کی محبت نہ تھی ۔ بات وہی اپنی فکر کی تھی ۔

آئیے اب ان کے کل کے یعنی ۶؍اپریل کے کالم کو دیکھتے ہیں ۔ اسے پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ اب اونٹ کسی کروٹ بیٹھ رہا ہے ۔ اپنے اس کالم میں انھوں نے اسلام کے بجائے انسانیت کی تبلیغ کی ہے ۔ آج کل انسانیت ، خاص طور پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کے استعمال کے بعد خاصی مقبول ہو رہی ہے ۔ مسلمان بھی اس کی طرف لپک رہے ہیں ۔ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اسلام اور انسانیت ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں ۔ ایسے حساس ماحول میں جناب ندیم صدیقی اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے مواقع تلاش کر رہے ہیں ۔ خیر ، ہم بتادیں کہ اسلام اور انسانیت ایک ہی چیز کے دو نام نہیں ہیں ۔ انسانیت مساوات مرد و زن کی بات کریگی ۔ جبکہ اسلام مرد کو عورت پر قوام بتاتا ہے ۔ انسانیت کہے گی وراثت میں عورت کا آدھا حصہ کیوں ؟ عورت کی گواہی آدھی کیوں ؟ ابھی چند روز پہلے ہی پڑھا کہ اسلام میں سنگساری کی جو سزا ہے وہ وحشیانہ اور غیر انسانی ہے ۔ دوسری طرف اللہ زور دیتا ہے کہ اللہ کی حدود قائم کرنے میں تمھیں کسی قسم کی جھجھک نہیں ہونی چاہئے ۔ ہماری خواہش ہے کہ ندیم صاحب اسلام کے ان اصولوں پر بھی اپنا موقف ظاہر کریں ۔

ندیم صدیقی نے اپنے اس کالم میں کچھ غیر مسلم شعراء کے نعتیہ اشعار لکھے ہیں ۔ پنڈت دتا تریہ کیفی کے قرآن کے صوتی آہنگ کی تحقیقات بھی پیش کی ہیں ۔ ہم بھی انھیں تین اشعار سناتے ہیں ۔ یہ مسلم شاعر کے ہیں (۱)ریشم کا اک پھٹا ہوا جُز دان گھر میں ہے؍احباب مطمئن ہیں کہ قرآن گھر میں ہے (۲)سمندروں میں موافق ہوا چلاتا ہے ؍ جہاز خود نہیں چلتے خدا چلاتا ہے (۳)اب کے جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پر ہوگا ؍ ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی ۔ ٹھیک ۳۰ سال پہلے ہم نے ان اشعار کے خالق کو ایک خط لکھ کر کہا تھا کہ یہ اشعار آپ نے اپنے سامعین کے دینی استحصال کی خاطر لکھے ہیں ۔ اس کی پشت پر عمل کی خواہش سرے سے مفقود ہے ورنہ آپ اپنی شاعرہ بیوی کو اسٹیج کی رونق بنانے کی بجائے گھر بٹھاکر اس کا نان و نفقہ دیتے ۔ چند دنوں بعد محترم شاعر مشاعرے میں تشریف لائے اور مائک ہاتھ میں آتے ہی موصوف کے منہ سے جو پہلا جملہ ادا ہوا وہ یہ تھا ۔ ’آپ کے دھولیہ شہر سے مجھے بڑے میٹھے میٹھے پیارے پیارے خطوط آتے ہیں ۔ مگر میرے بھائیو ! میرا کہنا یہ ہے کہ سفر کی لمبائی اور روٹی کی گولائی ساتھ ساتھ چلتی ہے‘ اس جملے کے بعد واضح کرنے کوکچھ نہیں رہ جاتا ۔ بالکل یہی حال غیر مسلم شعرا کا بھی ہے ۔ ورنہ ہم نے پڑھا ہے کہ ایک انگریز ’پلاؤ ‘ کھا کر اپنی قوم کے دورحکمرانی میں مسلمان ہو گیا تھا ۔ انگریز صحافیہ طالبان جیسے’مستند دہشت گردوں‘ کے ذرا سے حسن سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئی تھی ۔ ظاہر ہے ایسی باتوں سے ندیم صدیقی کو دلچسپی نہیں ہوسکتی ورنہ اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں ۔ ان کے ممدوح تو وہ لوگ ہیں جو عشق نبی ﷺ اور عشق قرآن میں شرابور ہو کر بھی تبدیل نہیں ہوتے ۔

جوش میں مضمون کچھ طویل ہو گیا ہم تو بس اتنا چاہتے ہیں کہ ندیم صاحب کو اگر اسلام پر تیشہ ہی چلانا ہے تو پہلے وہ بہادروں کی طرح اسلام سے برأت کا اعلان کریں ۔ پھر اسلام کے باہر کھڑے رہ کر اسلام پر تنقید کریں ۔ انشاء اللہ ان کے ہر اعتراض کا جواب دیا جائے گا ۔ صاف چُھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والا رویہ درست نہیں ۔ ممبئی اردو نیوز کے مدیر و مالکان محترم کو بھی اس تعلق سے اپنا موقف واضح کرنا چاہئے ۔ اردو ٹائمز کے مقابلے ممبئی اردو نیوز کا کھڑا رہنا یہ اللہ کی دین ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ مالکین خوب اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اس لئے اللہ کی خوشنودی ہر چیز پر مقدم ہونی چاہئے ۔

7697376137

Leave A Reply

Your email address will not be published.