صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

برہانپور(مدھیہ پردیش ) انتظامیہ کا عجیب رویہ

59,238

ممتاز میر: برہانپورایک مسلم اکثیریتی تاریخی شہر ہے ۔اور چونکہ مسلم اکثیریتی شہر ہے اسلئے انتظامیہ کے تعصب کا شکار ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔جب سے کرونا کا سیزن شروع ہوا ہے یا شروع کیا گیا ہے اب تک برہانپور شہر مین دو کرونا پیشنٹ دریافت ہوئے ہیں۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ دریافت کئے گئے ہیں۔پہلا مریض ۲۱۔اپریل کو ایک نجی اسپتال میں ملا ۔ایک خاتون جو پڑوسی مہاراشٹرین شہر ملکا پور سے بغرض علاج آئی تھی۔وہ کون تھی کیا مرض تھا ۔اس کے رشتے دار کون تھے یہ پتہ نہیں چلا ۔بس انتظامیہ نے ڈکلیئر کر دیا کہ یہ کرونا مریض ہے ۔یعنی ہے ۔ہم کسی آزاد ذریعے سے یہ کنفرم نہ کر پائے۔مگر دوسرا انتظامیہ کا اعلان کردہ کرونا مریض ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کرونا کا مریض نہیں ہے۔ہماری کرونا کے دوسرے مریض جو سابق کارپوریٹر ہیں ۔اور سابق کیا لاکڈاؤن نہ ہوتا تو ابھی پھر کارپوریٹرکے فرزند جو خود بی یو ایم ایس ڈاکٹر ہیں سے بات چیت ۲۹۔اپریل کوہوئی تھی ۔پھراسی دن ایک اور آڈیو ہمارے پاس آیا جس میں کارپوریٹر محترم برہانپور کے ایک شخص سے بات کرتے ہوئے اپنی خیریت کی اطلاع دے رہے ہیں ۔وہ کہہ رہے کہ مجھے سردی زکام تو سال بھر رہتا ہے بس وہی ہے ۔انھون نے اس گفتگو میں کیلاش وجے ورگی جو کہ آجکل بی جے پی کے نیشنل جنرل سیکریٹری ہیں ان کی مدد کے لئے۔،پھر برہانپور کے کلکٹر اور ایس پی کا بھی شکریہ ادا کیا ہے ۔انھوں نے یہاں تک کہا ہے کہ ایس پی صاحب سے ان لوگوں کے خلاف کاروائی کی بھی بات ہوئی ہے جو میرے خلاف افواہیں اڑا رہے ہیں۔ہم کارپوریٹر کے آس پاس والوں سے کنفرم کیا ہے کہ انھیں سال بھر زکام رہتا ہے۔ہان ابھی کچھ دنوں پہلے وہ دل کا علا ج کروا کر آئے تھے۔پھر۔۔ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

وجہ ہے مسلم دشمنی ۔یہ مسلم اکثریتی شہر ہے اس لئے فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔کلکٹر صاحب غالباً کانگریس کی باقیات میں سے ہیں۔جبکہ کرونا کہ ہنگامے کے ابتدائی دنوں میں یہاں کانگریس کے منہ سے حکومت چھین کر شیو راج سنگھ چوہان حکومت بنا چکے ہیں۔وہ اس سے پہلے بھی یہاں تین بار حکومت کر چکے ہیں۔انھوں نے اپنے دور حکومت میں کچھ کیا ہو نہ کیا ہو مدھیہ پردیش میں فساد ایک بھی نہ ہونے دیا ۔بی جے پی کا مکھیہ منتری ہونے کے باوجود ہم انھیں کم فرقہ پرست سمجھتے ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ کلکٹر مہودے جو کچھ بھی برہانپور میں کر رہے ہیں اس کا علم وزیر اعلیٰ کو نہیں۔مقامی سٹنگ ایم ایل اے تقریب حلف برداری سے آکر Quarantine ہوگئے ہیں۔اس کے باوجود ایک خبر یہ بھی ہے کہ مذکورہ کارپوریٹر موصوف اندور روانگی سے پہلے ودھایک محترم سے بھی ملے تھے۔اسی لئے لوگ سیاستداں بننے کو مرتے ہیں ۔کیونکہ ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔اور عام آدمی قوانین کا ایندھن بننے کے لئے ہی ہوتا ہے۔اور قانون کا سہارا لے کر عوام کے مسائل سے دور بھاگنے کا بڑا تیر بہدف نسخہ ہے کوارنٹین ہوجا نا۔ظاہر سی بات ہے عوام کی ہزار جانوں سے قیمتی ہے ایک ایم ایل اے کی جان۔ہاں تھوڑی بہت راحت سابق ایم ایل اے و منسٹرمحترمہ ارچنا چٹنس ضرور عوام کو پہونچا رہی ہیں ۔انھیں ہم نے کئی بار عوامی مسائل کے ساتھ کلکٹرسے ملتے دیکھا ہے مگر اس کے باوجود یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ کھل کر کچھ نہیں کر پا رہی ہیں ۔دوسری طرف کلکٹر صاحب اور ان کی انتظامیہ عوام کے خلاف چھکے پر چھکے مار رہی ہے ۔۲۰ ۔ اپریل تک شہر میں کرونا کا ایک پیشنٹ نہیں تھا مگر اس کے باوجود لاک ڈاؤن کی سختی اتنی تھی جتنی ممبئی کے ریڈ زون میں نہیں تھی ۔ممبئی اور مہاراشٹر میں صبح ۸ سے ۱۱ اور شام ۴ سے ۶ خرید و فروخت کے لئے چھوٹ دی جارہی تھی ۔اس کے علاوہ حکومت کے طرف سے کھانے کے پیکٹ بانٹے جا رہے تھے ۔برہانپور میں لاکڈاؤن کی سختی ہونے کے باوجود انتظامیہ کہیں کھانے کے پیکٹ بانٹتی نہیں نظر آئی ۔یعنی انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ لوگ بھوکوں مر جائیں ۔کلکٹر صاحب !ایک سال تک اسی طرح کی سختی رکھیں مگر پھر بھوکوں کو کھانا کھلانے کا بھی انتظام کریں ۔صرف اتنی ان کی ڈیوٹی نہین ہے کہ شہر کے ہرشخص کے پیچھے ایک پولس والا لگا دیں ۔اگر وہ نیک نیت ہیں تو پولس والوں کو یہ دیکھنے پر لگائیں کہ کوئی بھوکا تو نہیں سو رہا ہے۔مگر وہ ایسا نہیں کریں گے ۔ہر شخص کی ایک ذہنیت ہوتی ہے ۔ان کی ذہنیت غالباً لوگوں تنگ کرنے کی ہے۔

تو پہلے ایک مسلم خاتون مریض میں کرونا ڈکلیئر کیا گیا مگر چونکہ اس کا شہر سے کوئی تعلق نہین تھا اسلئے شہر پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی۔پھر ہم یہ سمجھتے ہیں ۲۷ اپریل کو اس کارپوریٹر کو کرونا کا مریض بنا دیا گیا ۔یہ شہر کی گنجان مسلم آبادی کا رہنے والا ہے ۔اس بہانے سے قریب دو ڈھائی کلومیٹرکے رقبے کو سیل کردیا گیا ہے۔ااگر کوئی آکر دیکھے تو وہ ہنسے گا یا یہ سمجھے گا کہ یہ سیل غیر منصفانہ ہے ۔یہ صرف غریب لوگوں کا جینا حرام کرنے کی نیت سے کیا گیا ہے۔اور چونکہ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے تو ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ متعصبانہ کاروائی ہے۔قریب ۴ دن ہو چکے ہیں اور انتظامیہ کی طرف سے مہاراشٹر کی طرح کوئی امداد نہیں ۔سوچئے۔قریب ڈیڑھ ماہ سے لوگ اپنے روزگار سے دور ہیں۔ہزاروں لوگ روز کما کر کھانے والے ہیں۔سحر و افطار تو دور وہ جئیں گے کیسے ؟پہلے چوری چھپے کچھ نہ کچھ کہیں سے میسر آجاتا تھا اب محلے سیل کردینے کی وجہ سے نہ سحری کا انتظام ہو پارہا ہے نہ افطار کا ۔اور ایسا لگتا ہے کہ عید کی بھی یہ لوگ مٹی پلید کردیں گے۔

ابھی دو دن پہلے قریبی مہاراشٹرین شہر ملکا پور سے ایک ویڈیو ہمارے پاس آیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ رات میں لوگوں نے یا چوروں نے ۴ دکانیں توڑ کر لوٹ لی ہیں۔کیا کلکٹر صاحب دماغوں پر پہرے بٹھا دئے ہیں کہ یہ ذہنیت یہاں پیدا نہ ہوگی ۔کلکٹر صاحب سوچو اگر یہ بیماری یہاں جڑ پکر گئی تو کرونا کا بھی باپ ثابت ہوگی۔آپ کے ایڈمنسٹریشن کا حال یہ ہے کہ شہر کی آدھی گاڑیوں پر یا تو نمبر پلیٹ نہیں ہےیا آگے ہے تو پیچھے نہیں اور پیچھے ہے تو آگے نہیں ۔اگر سب کچھ برابر ہے تو حروف اور نمبر چھوٹے بڑے ملیں گے ۔پھر لوگوں کو پارکنگ سنس نہیں ہے ۔ہم ۴ سال پہلے اس وقت کے کلکٹر اور ایس پی کو اس طرف توجہ دلا چکے ہیں مگر آج بھی وہی حال ہے اب جو انتظامیہ اتنا معمولی سا کام بھی نہ کر سکے وہ شوشل ڈسٹنسنگ کے پیچھے پڑی ہے اور اس چکر میں ساری آیوش دکانیں اور ڈاکٹرس بند کروا چکی ہے دکانیں تو کسی طرح شروع ہوگئیں ہیں مگر ڈاکٹرس کا کوئی پرسان حال نہیں ۔جبکہ مہا راشٹر کا وزیر اعلیٰ ڈاکٹروں کی خوشامد کر رہا ہے کہ ان حالات میں اپنے دواخانے کسی حال بندنہ کریں۔شوشل ڈسٹنسنگ تو کلکٹریٹ میں نہیں ہو پاتی تو کیا کلکٹریٹ بند کر دیں گے۔خود مدھیہ پردیش میں محکمہء آیوش ۴۔اپریل کو اشتہار دے رہا ہے جس میں ایک طرف وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کی تصویر ہے اور دوسری طرف وزیر اعظم مودی ہیں ۔اس اشتہار میں یونانی ،آیورویدک اور ہومیو پیتھی کی کرونا کے لئے دوائیں اور قوت مدافعت بڑھانے کے طریقے بتائے گئے ہیں ۔ہم نے اب تک کووڈ ۱۹ کا جتنا بھی مطالعہ کیا ہے آیوش دواؤں سے ہی کامیابی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے مگر ہمارے کلکٹر صاحب انگریزوں کی مرعوبیت سے اب تک باہر نہیں آسکے ہیں ۔

برہانپور کے معروف حکیم و ڈاکٹر محمود خان صاحب نے قریب تین ہفتے قبل نمائندہء ممبئی اردو نیوز کو بتایا تھا کہ اس مرض کو وبائی بنانے میں میڈیا اور کچھ بین الاقوامی سازشی طاقتوں کا ہاتھ ہے (اور یہ وہی طاقتیں ہیں جو اول دن سے مسلمانوں کی دشمن رہی ہیں)آج ہم محسوس کر رہے ہیںکہ اس کا بہتر اور کامیاب علاج کا طریقہء کارآیوش کے پاس ہی ہے ۔۔ہمیں یقین ہے کلکٹر مہودئے آج تک کسی آیوش تعلیمی ادارے کے قریب نہ پھٹکے ہونگے۔

ایک بار پھر دوسرے پیشنٹ کی طرف پلٹتے ہیں ۔ایک اور ویڈیو آیا ہے جو لوکل چینل کا ہے ۔اس میں اینکر بتا رہی ہے کہ ایس پی کے کہنے پر کارپوریٹر اور اس کے لڑکے اور ڈرائیور کے خلاف دفعہ ۱۸۸ کے تحت کیس درج کیا گیا ہے ۔پولس والااس ویڈیو میں کہہ رہا ہے کہ وہ بلا ااطلاع اندور گئے ہیں ۔جب کہ یہ ناممکن ہے ۔ایک چھوٹا سا بچہ بغیر پولس کی نظر میں آئے ایک گلی سے دوسری گلی میں نہیں جا پارہا ہے اورکارپوریٹر ایک بڑی سی گاڑی میں اندور۱۸۰ کلو میٹردور کیسے جا سکتا ہے ۔پھر کارپوریٹر اپنے بیان میں کیلاش وجے ورگی۔کلکٹراور ایس پی کاشکریہ ادا کر رہا ہے ۔یہ کیا ہے، ہمیں کوئی بڑی سازش لگتی ہے جس کا ایندھن مسلمان بنیں گے اورافسوس کے خود مسلمان ہی اس کو اپنی نادانی سے انجام تک پہونچا رہے ہیں ۔یہ خود ہی دھوکے کھانے کو تیار رہتے ہیں اور بعد میں روتے ہیں۔بہرحال ہم اپنی ریاستی ،مرکزی حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں آزاد انکوائری کمیشن قائم کریں قبل اس کے کوئی بہت برا سانحہ وقوع پزیر ہو ۔
کلکٹر صاحب کا مزاج بڑا عجیب ہے ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔بینکوں کے تعلق سے کہا نہیں جاسکتاکہ کب کھلیں گے اور کس دن بند رہیں گے ۔بینک جاؤ تو وہاں کا عملہ بڑی بیزاری سے جواب دے گا بینک ایک ہفتہ بند رہیں گے ۔کیوں؟ْ تو کہیں گے کلکٹر سے پوچھو۔کسی دن کہیں گے آج بینک بند ہیں۔جواب وہی کلکٹر سے پوچھو ۔ہم کئی مرتبہ بینک گئے ۔اگر کبھی کلکٹر صاحب کی اجازت ہو تی بھی ہے تو پیسے بھرنے کے لئے نکالنے کے لئے نہیں۔اور غریبوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اسکالرشپ نکال کر پیٹ بھرنا چاہتے ہیں۔کلکٹر صاحب نے وہ راستہ بھی بند کر رکھا ہے۔

ہم بہرحال یہ چاہتے ہیں وطن عزیز میں مسلمانوں کی لیڈر شپ اس طرف جلد سے جلد توجہ دے اس سے پہلے کہ یہاں کوئی بڑا سانحہ ہو جائے ۔اب بھی معلوم نہیں کتنے بر وقت طبی امداد نہ ملنے کی بنا پر کتنے مر گئے ہونگے ۔یہ اس تاریخی شہرکا حال ہے جسے کبھی دارالسرور کہا جاتا تھا اس شہر کی بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں اب کوئی لیڈر شپ نہیں ہے ۔اور جو ہے وہ کیسی ہے وہ بھی دیکھ لیجئے۔ہمارے پاس کچھ دنوں پہلے ایک ویڈیو آیا تھا ۔جس میں ایک پولس والا ایک مسجد کے پاس کھڑا ہوا ہے اور مسلمان اس کو گھیرے ہوئے بحث کر رہے ہیں کہ تونے ہمارے امام کے ساتھ بدتمیزی کیوں کی ۔پولس والا کہہ رہا ہے کہ آپ نے اذان کیوں دی ؟آپ کے بڑوں سے کلکٹر صاحب کی بات ہوگئی تھی۔لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بڑوں نے ہمیں کچھ نہیں بتایا ۔اب جو بڑے کلکٹر کویہ نہ بتا سکیں کے اذان انسانوں کو بلانے کے لئے دی جاتی ہے کرونا کو بلانے کے لئے نہیں۔وہ کیسے بڑے ؟ان بڑوں کے تعلق سے اب لوگوں میں عام خیال یہ ہے کہ وہ بڑے مخبر ہیں ۔اور ان کے نیچے سے جو ذمین کھسک رہی ہے وہ انتطامیہ کی مدد سے اسے اپنی جگہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.