صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

سیکولر خوش فہمیاں 

1,289

ممتاز میر

سہ روزہ دعوت دہلی کو ہم جماعت اسلامی ہندکا آرگن سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ اس راز سے آج تک باقاعدہ پردہ نہیں اٹھ سکا کہ دعوت جماعت اسلامی ہند کا ترجمان ہے یا نہیں ۔ جماعت کے اکابرین میں کچھ کا کہنا ہے کہ دعوت ہمارا اخبار ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ دعوت کا جماعت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ہم زبان خلق کو نقارہء خدا سمجھتے ہیں اس لئے کہ دوست ہو یا دشمن دعوت میں شائع ہونے والی باتوں کوجماعت کی پالیسی کے طور پر ہی دیکھتا ہے۔اس کے علاوہ ہزاروں اردو اخبارات کی بھیڑمیں دعوت کو منفرد مقام حاصل ہے اسے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ دعوت کو یہ ریپیوٹیشن عطا کرنے والے اکابرین دہائیاں ہوئیں اللہ کے پاس چلے گئے۔اب جو ہیں،بس ،خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے۔

اسی دعوت کے۸تا۱۰۔اپریل کے شمارے میں صفحہء اول پر ایک مضمون شائع ہوا ہے ’ملک کے پارلیمانی انتخابات میں مسلمان کہاں کھڑے ہیں ‘۔ہم اس مضمون کے چند مقامات سے کچھ اقتباسات ابھی یہاں نقل کریں گے ۔ مضمون میں پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ سیکولر قوتوں نے انتخابات میں مسلم ووٹوں کی اہمیت ہی ختم کرکے رکھ دی ہے ۔ اسلئے حالیہ انتخابات میں مسلم امیدواروں پر داؤں ہی نہیں لگائے جارہے ہیں۔اور خود مسلم عوام و خواص کا حال یہ ہے کہ انھوں نے نام و نہاد سیکولر طاقتوں کو جتانے کی ذمے داری اپنے سر لے رکھی ہے۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ’گجرات اسمبلی انتخابات سے دیکھا جارہا ہیکہ انتخابی مہم مندروں اور مٹھوں سے شروع ہوتی ہے اور وہیں پہ ختم ہوجاتی ہے۔یعنی تمام پارٹیاں اکثریتی فرقے کے مذہب کی سیاست کر رہی ہیں ۔ جیسے صرف اقلیتی فرقے کے لوگ ہی ووٹ دیتے ہیں۔انہی کے ووٹوں سے امیدوار یا پارٹیاں کامیاب ہوتی ہیں‘ دوسری جگہ لکھتے ہیں’بی جے پی اگر سخت ہندتو کی بات کر رہی ہے تو کانگریس نرم ہندتو کی ۔فرقہ پرست قوتیں تو چاہتی ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی ختم ہوجائے‘ آخر میں مضمون نگار لکھتے ہیں ’مسلمانوں کا اچانک سیاسی و انتخابی منظر نامے سے غائب ہوجانا معمولی بات نہیں۔اس میں سازش بھی ہو سکتی ہے،کچھ اور بھی ،جو بھی ہے بہت منظم طریقے سے ہو رہا ہے۔سیکولرزم کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے مسلمان خود اتنے کمزور ہو گئے یا کمزور بنا دیئے گئے کہ اب ان کے مذہبی امور میں مداخلت کی جاتی ہے ،مسلم پرسنل لا پر حملہ کیا جاتا ہے اور اقلیتی اداروں کو چھینا جاتا ہے لیکن وہ انھیں بچانے کی پوزیشن میں نہیں‘ ۔

اسی سہ روزہ دعوت میں غالباً ۱۵ سال پہلے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ وطن عزیز میں ۹۰ پارلیمانی حلقے ایسے ہیں جہاں سے مسلم امیدوار بآسانی جیت سکتے ہیں۔ اگر تھوڑی سی حکمت عملی کے ساتھ امیدوار لڑائے جائیں تو ۲۰ مزید امیدوارپارلیمنٹ میں پہونچ سکتے ہیں۔اور یہ اس وقت کی با ت ہے جب ۲۵؍۳۰ ایم پی رکھنے والے لیڈر وزیر اعظم کی مسند پر براجمان ہو رہے تھے۔ہم اسی وقت سے یہ لکھتے آرہے ہیں کہ ہماری پہلی پسند مسلم پارٹیاں ہونی چاہئے۔مگر ملت کے لال بجھکڑ انھیں ووٹ کٹوا کہہ کر ملت کی نظروں سے گراتے ہیں۔سیاسی لیڈر کہے تو سمجھ میں آتا ہے ،لیکن دانشور بھی یہ کہیں تو احساس ہو تا ہے فراست کی سطح پر اب ہم کہاں کھڑے ہیں۔ممکن ہے انہی حقائق کی بنا پرمسلم حلقوں کی توڑ پھوڑ کی گئی ہو۔مگر سب سے اہم بات یہ دیکھنا تھا کہ یہ توڑ پھوڑ کیا کس نے؟کیا آر ایس ایس نے؟ یا اسی عطار کے لونڈے نے جس کی وجہ سے ہم پر یہ نوبت آئی ہے۔ہونے دو ،کتنی ہی توڑ پھوڑ کرلیں ۔کچھ نہیں ہونے والا اگر ہم ایک امت بن جائیں۔ ۷۰؍۷۵ ایم پی تو کہیں نہیں گئے ہیں۔مگر ہمارے علماء جن پر ملت کی سب سے زیادہ ذمے داری ہوتی ہے وہ ملت کو متحد نہیں منتشر کرتے ہیں اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی غلامی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔اسی لئے ہم نے مولانا اسرارالحق قاسمی مرحوم کے کانگریسی ایم پی بننے کو کبھی پسند نہیں کیا تھا ۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ جس سہ روزہ دعوت نے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے تعلق سے جو کچھ لکھا ہے خود اس کے سرپرستوں کیا حال ہے۔جماعت اسلامی حلقہء مہاراشٹر نے ۳۰ ؍مارچ کو تمام وابستگان جماعت کے نام ایک سرکیولر جاری کیا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ۲۶؍مارچ کی مجلس شوریٰ کی نشست منعقدہ اورنگ آباد میں یہ طے پایاہے کہ ’پارلیمانی انتخابات۲۰۱۹ میں چند پارلیمانی حلقہ جات کے استثنا کے ساتھ تمام پارلیمانی حلقوں میں این سی پی اور کانگریس اتحاد کی تائید کی جائے گی‘پھر ۲ ۔اپریل کو ایک پریس نوٹ جاری کیا گیا جس میں امیر حلقہ جماعت اسلامی مہاراشٹر جناب توفیق اسلم خان صاحب مذکورہ بالا فیصلہ کی صفائی میں فرماتے ہیں کہ یہ انتخابات فسطائی اور سیکولرنظریات کی ایک دوسرے پر بالا دستی ثابت کریں گے (یہ راگ ہم دہائیوں سے جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ ہر قابل ذ کرتنظیم اور فرد کے منہ سے سن رہے ہیں ۔ بڑا ڈھیٹ ہے کہ فیصلہ کسی صورت ہو نہیں چکتا) انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے اصولی طور پر یہ بات طے کی ہے کہ ہم اس سکہ رائج الوقت کا ساتھ دیں گے جس میں فسطائی نظریات رکھنے والوں کو روکنے کی طاقت ہوگی ۔بھلے ہی اس سکہء رائج الوقت کا ماضی یہ بتاتا ہو کہ وہ فسطائی نظریات رکھنے والوں سے کہیں زیادہ خطرناک گروہ ہیں ۔ خصوصاً ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ آج جو فسطائی نظریات کی فصل پک کر تیار ہوگئی ہے تو اس میں اس سکہء رائج الوقت کا ہی دامے درمے ہاتھ ہے۔

افسوس، صد افسوس ! ہم جیسا عامی جماعت کے اکابرین کو یہ یاد دلا رہا ہے کہ ان کا بانی جو کہ اورنگ آباد ہی میں پیدا ہوا تھا تقسیم وطن کے وقت کہہ گزرا ہے کہ اب ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے وطن کی سیاسی کشمکش سے الگ رہ کر صرف اور صرف دعوت کا کام کرناچاہئے۔اگر اس ہدایت پر صد فی صد عمل ہوتا تو ہمیں شاید الیکشن کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔برسوں وطن عزیز کی مکھیہ دھارا سے الگ رہ کرجماعت اسی طرح لنگوت کس کر مکھیہ دھارا میں کود پڑی ہے جیسے آجکل ہمارے علماء کرام دنیا داروں کو کماتے دیکھ کر لکشمی دیوی کی پوجا کرنے لگ گئے ہیں۔اب جماعت میں اپنی راہ الگ بنانے کا دم نہیں رہا۔یا ممکن ہے اب جماعت میں دنیا داروں کا غلبہ ہو گیا ہو۔اب یہ کسی ایسی نیک او رایماندار پارٹی کو سپورٹ نہیں کر سکتے جس میں فسطائیت سے لوہا لینے کی بظاہر کوئی امید نظر نہ آتی ہو۔حالانکہ ابھی رمضان آنے والا ہے اور سب سے زیادہ دھوم سے یوم الفرقان یہی منائیں گے ۔ اب تو ابو جہل ہی جیتے گا۔

ان کا اخبار تو کانگریس کے خلاف لکھ رہا ہے اور یہ خود اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کانگریس ہر وہ کام کر رہی ہے جس سے سیکولرزم کو دفن کرنے میں مدد مل سکتی ہو۔ کانگریس کا مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں یہ سمجھنا کہ اپنے دم پر اکثریت بنا لیں گے اور بی ایس پی کو اس کا جائز مقام نہ دینا کیا تھا؟اتر پردیش میں ایس پی ،بی ایس پی اور کانگریس کی کشمکش کیا ہے ؟دہلی اور ہر یانہ میں عام آدمی پارٹی سے دوری اختیار کرنا ،نا ممکن قسم کے مطالبات رکھ کر سامنے والے کو زچ کرنا ،بدنام کرنا کیا ہے ؟ کانگریس کو تو دہلی میں بارگین کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے ۔ بڑے بڑے مہارتھیوں کے ہوتے ہوئے ایک اسمبلی سیٹ نہیں نکال پائی۔خیر،جماعت والوں کو اگر کانگریس کے کالے کارنامے معلوم نہ ہوں تو دعوت کی پرانی فائلیں کھنگال لیں ۔ وہ کون سا ظلم ہے جو کانگریس نے مسلمانوں پر نہ کیا ہو ۔ پھر بھی یہ کانگریس کا چمتکار ہے یا ہم ہی اندھے ہیں کہ میں بی جے پی فسطائی اور کانگریس سیکولر نظر آتی ہے ۔ معلوم نہیں کہاں سے یہ بات اکابرین جماعت کے دماغ میں گھس گئی ہے کہ اگر کانگریس برسر اقتدار آگئی تو جماعت کے مفادات کا تحفظ کرے گی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137

Leave A Reply

Your email address will not be published.