صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

پرینکا اور کانگریس

46,920

عارِف اگاسکر

’۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخاب میں کانگریس کو ملی ہزیمت نے کانگریس کی ساکھ کو بُری طرح متاثر کیا ہے ۔ جس کے بعد کانگریس کے قومی صدر راہل گاندھی نے پارٹی کو اپنا استعفیٰ سو نپ دیاہے ۔ حالانکہ راہل گاندھی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی پر سخت حملے کیے اورنریندر مودی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے اپنے تمام تر سیاسی حربہ استعمال کیے لیکن وہ نریندر مودی کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں کامیاب نہیں رہے ۔ جس کے بعد انھوں نے پارٹی کی قیادت سے انکار کر تے ہوئے صدارتی عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔

راہل گاندھی کے مستعفی ہونے کے بعد مذکورہ عہدہ پر اب تک کسی کو فائز نہیں کیا گیا ہے ۔ لیکن پرینکا گاندھی نے اچانک اتر پردیش کے سون بھدر گائوں کا دورہ کرتے ہوئے پارٹی کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ بہتر ڈھنگ سے پارٹی کی قیادت کر سکتی ہیں ۔ پارلیمانی انتخاب کے بعد پرینکا گاندھی کے اس سیاسی دورہ نے جہاں کانگریسیوں میں نیا جوش و خروش پیدا کیا ہے وہیں سیاسی مبصرین بھی ان کے اس دورہ کو پارٹی کی قیادت کی جانب بڑھتا ہوا قدم قرار دے رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں مراٹھی روزنامہ پُڈھاری نے ۲۳؍ جولائی کو اپنے اداریہ میں پرینکا گاندھی کے سون بھدر کے دورہ کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے یہ بتانے کی کو شش کی ہے کہ کیا پرینکا گاندھی کانگریس کی ابتر حالت میں سدھار لاتے ہوئے پارٹی میں نئی جان ڈال سکتی ہیں ؟ یا اس کے پیچھے کانگریس کا کوئی مقصد چھپا ہوا ہے‘ ۔

کانگریس پارٹی کی شکست کے بعد راہل گاندھی نے اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے صدارتی عہدہ سے استعفیٰ دیا اور اسے پارٹی کی مجلس عاملہ کو سونپ دیا تھا ۔ راہل گاندھی کے اس طرح استعفیٰ دینے پر کسی بھی کانگریسی لیڈر نے اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ جبکہ اسی میٹنگ میں نو منتخبہ جنرل سیکریٹری پرینکا اور یو پی اے کی صدر سو نیا گاندھی نےراہل کے کاموں کی تعریف کرتے ہوئے ان کے استعفیٰ کی مخالفت کی ۔ سونیا گاندھی نے راہل کے استعفیٰ کی مخالفت کرتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ راہل آئندہ بھی پارٹی کی قیادت کریں ۔ لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہوا اور آج بھی یہ سوال قائم ہے کہ پارٹی کا صدر کون ہے ، یا رضاکار یا حامی کس کی جانب دیکھیں ؟

پارٹی کے صدارتی عہدے کا معاملہ ابھی سلجھا بھی نہیں تھا کہ اچانک پرینکا گاندھی اترپردیش میں واقع سون بھدر ضلع کے ایک گائوں میں ہوئے قتل کا بہانہ ڈھونڈ کر وہاں پہنچ گئیں ۔ لوک سبھا انتخاب کے بعد کانگریس پارٹی کی جانب سے کی گئی یہی اولین کارکردگی تھی ۔ لیکن سون بھدر میں حکم امتناعی نافذ ہونے سے ریاستی حکومت نے پرینکا گاندھی کے گائوں میں جانے پر پابندی عائد کی ۔ اس کے بعد پرینکا گاندھی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مِرزا پور کے مقام پر دھرنا دیا اور متاثرین سے ملاقات کیے بغیر واپس لوٹنے سے انکار کیا ۔ ان کے اس ضد کے آگے انتظامیہ نے گھٹنے ٹیک دیئے اور متاثرین کے کچھ خاندان والوں کو گائوں کے باہر لاکر ان کی پرینکا گاندھی سے ملاقات کرادی تب جاکر پرینکا گاندھی نے اپنا دھرنا ختم کیا اور یہ مو ضوع وہیں پر ختم ہوا ۔

وہاں سےپرینکا گاندھی سیدھے وارانسی پہنچ کر دہلی واپس آئی اور شیلا دکشت کی آخری رسو مات میں شریک ہوئیں ۔ ان دو دنوں میں پر ینکا نےکانگریس پارٹی میں نئی روح پھونک دی یہ ہرکسی کو بھی قبول کر نا پڑے گا ، ورنہ سون بھدر کے معاملے سے عدم توجہی برتی جاتی ۔ پر ینکا کے سون بھدر جانے سے دیگر اپوزیشن پارٹیاں نیند سے بیدار ہوگئیں اورانھیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ متاثرین کےآدی واسی ہونے کے سبب کہیں ہم پیچھے نہ رہ جائیں ۔ پرینکا کے سون بھدر کا دورہ کر نے کے بعد ترنمل لانگریس کا وفد بھی وہاں پر پہنچ گیا ۔ بعد ازاں اور اپنے بھائی کے گھر اور دفتر پر ہوئی چھاپہ ماری سےمچے کہرام کے باوجود مایا وتی نے بھی اپنے رضاکاروں کو سون بھدر جانے کا حکم صادر کیا ۔ جبکہ مذکورہ گائوں میں ہوئےقتل کے معاملہ میں سماج وادی پارٹی کی جانب سے اکھلیش یادو کا بھی پہلا ردعمل سامنے آیا ۔ یہ سب سلسلے وار واقعات یقیناً اس آدی واسی متاثرین کے انصاف کے لیے تھے ایسا کوئی نہیں کہے گا بلکہ وہ ایک سیاسی منظر تھا ۔ اور سیاست میں ہمیشہ یہ سب ہو تا رہا ہے ۔

سوال پیدا ہو تا ہے کہ پر ینکا نے کس کے اشارہ پر یہ دائو کھیلا تھا یا وہ اس سے کسی کو کوئی اشارہ دینا چاہتی تھیں ؟ پرینکا کے اس دورہ کے پیچھے کانگریس کو ایک نئی زندگی عطا کرنے یا پارٹی میں اپنا مقام ثابت کرنے کے علاوہ کیا دیگر کوئی کوشش ہو سکتی ہے ؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے اور اس سوال کو سمجھنے کے لیے راہل گاندھی کے استعفیٰ نامہ کی تحریر پر غور کر نا چاہیئے ؟ جس میں راہل گاندھی نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ انھوں نے پارٹی کی شکست کی ذمہ داری لیتے ہوئے استعفیٰ دیا ہے اور آئندہ وہ پارٹی کے لیے کام کرتے ہوئے اپنی سیاسی جد و جہد کو جاری رکھیں گے ۔ لیکن اس کے ساتھ انھوں نے صدارتی عہدے پر نہ رہنے کے تعلق سے ایک نوٹ جوڑتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ پارٹی کی قیادت گاندھی خاندان کے کسی فرد کے پاس ہو ۔ اس کا مطلب کیا وہ ایسا کہنا چاہتے تھے کہ ان کے بعد پرینکا اور ان کے خاندان کا دیگر کوئی بھی شخص پارٹی کی قیادت نہ کرے ؟ پرینکا کا اعتراض راہل گاندھی کے استعفیٰ پر تھایا ان کے استعفیٰ میں خاندان کا جو تذکرہ تھا اس پر انھیں اعتراض تھا؟

پرینکا کی یہ منشاء تو نہیں تھی کہ راہل اگرناکامیاب ہوئے ہیں تو وہ پارٹی کو قیادت دے سکتی ہیں ۔ اسے ثابت کرنے کے لیے ہی کیا انھوں نے سون بھدر جانے کے لیے قدم اٹھائے تھے ؟ کیونکہ انھوں نے پارٹی کے کسی لیڈر سے اس تعلق سے مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو ساتھ لیا تھا ۔ پرینکا سیدھے سون بھدر جانے کے لیے وارانسی پہنچ گئیں اوروہاں کے اسپتال میں زخمیوں سے ملاقات کرکے ہمدردی کا اظہار کیا ۔ ان کی مزاج پرسی کرنے کے بعد اچانک سون بھدر جا نے کے لیے نکلیں لیکن حکم امتناعی کے سبب انتظامیہ نے انھیں روکا ۔ وہیں سے پر ینکا کی سون بھدر کی ملاقات بحث اور خبروں کا مو ضوع بن گئی ۔ پرینکا کے اس دورہ کے بعد کچھ افراد کو راہل کے آٹھ سال پرانے بھٹا پرسول کی ملاقات یاد آئی تو کچھ افراد کو چار دہائی قبل اندراگاندھی کے ذریعہ بہار کے بیلچھی گائوں کا دورہ کر نے کی یاد آئی ۔ وہاں پر سیلابی صورتحال کی وجہ سے اس وقت اندرا گاندھی کو کسی نے نہیں روکا تھا ۔ لیکن بھٹا پرسول میں زمین کو سختی سے ایکوائر کرنے کا معاملہ تھا ۔اور حکم امتناعی کے سبب راہل گاندھی بذریعہ موٹر سائیکل وہاں پہنچے تھے ۔ اس سے قبل لوک سبھا میں کانگریس کو بہتر کامیابی حاصل ہو ئی تھی ۔

راہل گاندھی اتر پردیش اسمبلی میں دوبارہ کامیابی حاصل کرنے کے منصوبہ کے تحت اس وقت ریاست میں خیمہ زن ہوئےتھے ۔ ۲۰۲۲ء میں اسمبلی کوجیتنے کی ذمہ داری راہل گاندھی ہی نے پرینکا کوسونپی ہے ۔ کیا اسی لیے انھوں نے سون بھدر کاموضوع اٹھایا ہے ؟ یا وہ یہ بتانا چاہتی ہیں کہ وہ راہل گاندھی سے زیادہ جارح ہیں اور کانگریس کی قیادت کر سکتی ہیں ؟ کیونکہ ان کے دھرنا دینے سے آس پاس کے کئی ضلعوں کے کانگریسی رضاکار راستوں پر آگئے ۔ کئی ریاستوں کے لیڈران سون بھدر جانے کے لیے تیار ہو گئے ۔ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ نے اس طرح کااعلان بھی کر دیا ۔ کیا پرینکا یہ ثابت کرنا چاہتی تھیں کہ اس کارکردگی سے وہ ہی کانگریس کی قیادت کرکے نئی زندگی عطا کرسکتی ہیں ؟ کیا پرینکا کے ذریعہ اٹھایا گیا یہ پہلا قدم اس بات کی نشان دہی نہیں کرتا کہ بقیہ سنیئر لیڈران اب راہل کی منت سماجت کو چھوڑ کر ان کی قیادت کے لیے آگے آئیں ۔ سیاسی واقعات ہی اب اس کا جواب دیں گے ؟ کیونکہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ، وہ آگے نکل جاتا ہے اور اس سے مناسبت رکھنے والوں کا ہی زمانے میں ٹکے رہنا ممکن ہو تا ہے ۔

[email protected]    Mob:9029449982

Leave A Reply

Your email address will not be published.