صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

شا ہین باغ کا شکنجہ ۔۔۔!

282,847

عارِف اگاسکر

دہلی کے اسمبلی انتخابات کی مہم میںبی جے پی نے شاہین باغ کے پُر امن مظاہرے کو لے کر عوام کے سامنے جونفرت آمیز بیانات دیئے ہیں وہ ان کے ذہنی دیوالیہ پن کی بر ملا عکاسی کر تے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون این آر سی اوراین پی آر کے خلاف شاہین باغ میں جاری احتجاج میںشریک مظاہرین نے وزیراعظم نریندر مودی کے بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہےجو انھوں نے سلیم پور کے ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر تے ہوئے دیا تھا۔ا ن مظاہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت شاہین باغ اور ملک کے دیگر حصوں میں ہو نے والے احتجاج کو ختم کر نا چاہتی ہے توپہلے اسے شہریت تر میمی قانون ، این آر سی اور این پی آر کو واپس لینا ہو گا۔ شاہین باغ میں این آر سی اور سی اے اے کی مخالفت میںہو نے والے احتجاجی مظاہرے کے تعلق سے ایک مشہور ٹی وی چینل کے صحافی نے اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ دھر نے پر بیٹھی ہوئی خواتین کو ڈرانے دھمکانے کی بھی کو شش کی جائے گی ۔ بی جے پی کے لیڈران کی جانب سےشاہین باغ کے تعلق سے جو بھی متنازع بیانات آرہے ہیں ان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔شاہین باغ کے تعلق سے ۲؍ فروری ۲۰۲۰ء کوممبئی سے شائع ہو نے والے مراٹھی روز نامہ’نو شکتی‘ میںاپنے کالم ’ اسٹیٹ لائن‘ میں سو کُرت کھانڈیکر لکھتے ہیں ۔

راجدھانی دہلی میں واقع شاہین باغ میں پچھلے دیڑھ ماہ سے جاری مُسلم خواتین کے مظاہرے سے دہلی کی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ۸؍ فروری کودہلی اسمبلی کا انتخاب ہے اور۱۱؍ فر وری کو ووٹوں کی گنتی ہو گی۔ مذکورہ انتخاب میںدہلی میں بجلی، پانی، راستے، حفظان صحت اور اسکول یہ تمام مدعے ثانوی حیثیت کے ہوں گے۔ جبکہ عام آدمی پارٹی کے روح رواں اور دہلی میںبر سر اقتدار عام آدمی پارٹی کے وزیر اعلیٰ اروِ ند کیجریوال دہلی کی ترقی کے مدعوں کو ہی انتخابی مہم کا مو ضوع بنا رہے ہیں۔لیکن بی جے پی نے شاہین باغ کے مُسلم مظاہرے کو ہی انتخابی مہم کا بڑا مدعا بنا یا ہےجس کی وجہ سے دہلی کے مقامی مدعےان مدعوں کے سامنےبونے ہو گئے ہیں۔نئے شہریت قانون اور شہریت کا اندراج(سی اے اے اوراین سی آر)کی مخالفت میں مذکورہ مظاہرے میں شریک ۲۵؍ ہزار سے زائدمُسلم خواتین شاہین باغ میں جم کر بیٹھی ہوئی ہیں۔ شاہین باغ کی تحریک ملک کے مختلف شہروں میں تیزی سے پھیل رہی ہے جبکہ پُونے کے کو ندھو یا اور ممبئی کے ناگپاڑہ میں بھی مُسلم خواتین ہزاروں کی تعداد میں راستے پر اُتر آئی ہیں۔

مر کز میں بی جے پی کا اقتدار ہے اور۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخاب میں ملک سےبی جے پی کے تین سوسےزائد رکن پارلیمان منتخب ہو کر آئے ہیں جن میں دہلی سے بی جے پی کے ۷؍ا راکین پارلیمان کامیاب ہوئے ہیںلیکن دہلی اسمبلی میں بی جے پی کا اقتدار نہ ہو نے سے مودی اور شاہ کو افسوس ہے۔ بی جے پی نےکیجری وال اوراس کی پارٹی کو شکست دینے کے لیے موجودہ انتخاب کو اپنی انا کامسئلہ بنایا ہے۔ بی جے پی کی یہ حکمت عملی ہے کہ کچھ بھی کر کے عام آدمی پارٹی سے اقتدار چھین لیا جائے۔کیجری وال دہلی کے مقبول قائد ہیںلیکن کیجری وال کی پچھلی پانچ سالہ کار کر دگی پر تنقید کر نے کے لیے بی جے پی کو کوئی مدعا نہیں مل رہا ہے۔بی جے پی نےطلاق ثلاثہ،جموں کشمیرکو خصوصی درجہ دینے والی منسوخ کی گئی ۳۷۰؍ کی دفعہ اور ایو دھیا کے مدعوں کو انتخاب کامو ضوع بنا کر دیکھ لیا ہے،لیکن ان مدعوں سے بی جے پی کو زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا یہ جان کر بی جے پی نےشدت سے شاہین باغ مظاہرہ کے مدعے کو انتخابی مو ضوع بنا نا شروع کیاہے۔ بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ شاہین باغ کی وجہ سے ہندو مُسلم سیاسی ووٹوں کاپولرائزیشن ہو گا جس کا فائدہ بی جے پی کو ملے گا۔ ملک کےوزیر داخلہ امیت شاہ کے ذریعہ انتخاب کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لینے سے دہلی کا انتخاب مزید دلچسپ بن گیا ہےجس کی وجہ سے یہ انتخاب امیت شاہ بہ مقابلہ اروِند کیجری وال کا ہوتا نظر آرہا ہے۔

تین ہفتہ قبل دہلی میں یکطرفہ انتخابی ماحو ل نظر آرہا تھا اور تمام او پنین پول کے ذریعہ یہ پیشن گوئی کی جا رہی تھی کہ مذکورہ انتخاب میں عام آدمی پارٹی کو دو بارہ اقتدار حاصل ہو گا اوراروِند کیجری وال ہی وزیراعلیٰ بنیں گے ۔لیکن اب شاہین باغ مظاہرہ کا مدعا ہی انتخابی مہم کا اہم مدعا بن جا نے سے بی جے پی پُر اعتماد ہے کہ ان کے ووٹ بینک کے علاوہ ۳۰؍ فی صد رائے د ہند گان کووہ اپنی جانب راغب کر سکیں گے۔مذکورہ انتخاب میں امیت شاہ کےشریک ہو نے سےدہلی اسمبلی کے انتخابی مہم کی سر گرمی میں اضافہ ہوا ہے جس کے سبب  بی جے پی کارکنان کی مایوسی ختم ہوگئی ہے۔عام آدمی پارٹی کے وزیراعلیٰ کے عہدے کےامیدوار کیجری وال ہی ہیںلیکن بی جے پی نے اس بار وزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوارکے نام کا ابھی تک اعلان نہیں کیا ہے۔ بی جے پی کے لیڈران پُر اعتماد ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مودی کے نام پر،مودی کی مقبولیت پراور امیت شاہ کی حکمت عملی سے بی جے پی کامیابی حاصل کرے گی ۔

۲۰۱۴ء میں بی جے پی مر کز میں بر سر اقتدار آئی تھی لیکن۲۰۱۵ء میں ہوئے دہلی اسمبلی انتخابات میںبی جے پی کو بُری طرح شکست حاصل ہوئی تھی   ۔اس وقت دہلی اسمبلی انتخابات میںعام آدمی پارٹی کے ۷۰؍ میں سے ۶۷؍ اراکین اسمبلی منتخب ہو ئے تھےاوربی جے پی صِرف ۳؍ نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ جبکہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کےلیے بی جے پی کی جانب سے کرن بیدی کو اُمیدوار بنانے کے باوجودانھیںبُری طرح ہزیمت کا سامنا کر نا پڑا تھا۔ موجودہ انتخاب میں بی جے پی نے چار دنوں میں ایک ہزار انتخابی مہم اورروڈ شو کی منصوبہ بندی کی ہے۔جبکہ بی جے پی نے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ،اُتر پردیش کےوزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ،ہر یانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹّر،گجرات کے وزیر اعلیٰ وِجے روپانی اوربی جے پی کےقومی صدر جے پی نڈّاجیسے قومی لیڈران کی فوج کو دہلی اسمبلی کےانتخابی میدان میں اتارا ہے۔بی جے پی کی جانب سے ۱۱؍وزیراعلیٰ، ۲۰۰؍ اراکین پارلیمان اور ۷۰؍ مر کزی وزراء کوانتخابی مہم میں اُتار نے کے باوجودعام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو دو ٹوک جواب دیتے ہو ئے کہا ہے کہ’دہلی ہماری ہے،ہم خود سنبھالیں گے۔۔۔

شاہین باغ کی مُسلم خواتین کے بے معیاد مظاہرہ سے بی جے پی مضطرب ہے۔ان احتجاجی خواتین نے راستے بند کیے ہیں، آمد ورفت بند ہے، اسکول کی بسیں یا ایمبولینس بھی وہاں سے گذر نہیں سکتی۔ہزاروں خواتین وہاں پر رات دِن حکومت کے نئے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف نعرہ بازی کر رہی ہیں۔شمال مشرقی دہلی کے بابرپُورحلقہ انتخاب میں امیت شاہ نے اپنی تقریر میںعوام سے اپیل کی ہے کہ ووٹنگ کر تے ہوئے بٹن زور سے دبائو تاکہ اس کا کر نٹ شاہین باغ تک پہنچے۔جس کی وجہ سے شاہین باغ کا مظاہرہ انتخابی مہم میں سبقت حاصل کر گیا ہے۔بی جےپی کے ایک لیڈر نے عوامی جلسہ میںشاہین باغ کے مظاہرین کو غدار کہا ہے۔ ان کے ذریعہ دیش کے غداروں کو۔۔۔ کہتے ہی جلسہ میں شریک لوگوں نے گولی ماروں سالوں کو کا نعرہ لگاتےہوئے جواب دیا ہے ۔ بی جے پی لیڈران نے رائے دہندگان کوخوفزدہ کر تے ہوئے کہا کہ وہ(مظاہرین) کل تمہارے گھروں میں داخل ہوں گے اور تمہاری بیٹیوں اور بہوئوں کی عصمت دری کریں گے ۔

بی جے پی کے ایک لیڈر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہےکہ بی جے پی دہلی میں بر سر اقتدار آئی تو ایک گھنٹے میں شاہین باغ کا صفایا کیا جائے گا۔بی جے پی لیڈران کی انتخابی مہم میں مُسلم مخالفت کا مدعاجارحانہ انداز میںپیش کیا جا رہا ہے۔ اس حکمت عملی  کے نتیجہ میںبی جے پی کا خیال ہے کہ ہندورائے دہندگان کو بی جے پی سے اپنائیت ہو گی اوروہ بی جے پی کی جانب راغب ہوں گے۔مر کزی الیکشن کمیشن نے اشتعال انگیز بیانات کو سنجید گی سے لیتے ہوئے بی جے پی کے مر کزی وزیر انوراگ ٹھاکور اور رکن پارلیمان پر ویش ورما کوکلیدی مقررین میں سے ہٹانے کا حکم دیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نےان دونوں لیڈران کو وجہ بتائو نوٹس بھی روانہ کی ہے۔خاص بات یہ ہے کہ بی جے پی کے کسی بھی اعلیٰ لیڈرنے نہ تو انھیںٹو کا ہے اور نہ ہی انھیں سنبھل کر بولنے کی تلقین کی ہے،یاان کے بیا نات کی کسی نے مذمت کی ہے۔

بی جے پی کے لیڈران کہہ رہے ہیں کہ شاہین باغ دہلی کا منی پاکستان ہے۔بی جے پی نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی مخالف جماعتیں شاہین باغ مظاہرہ کی حمایت کرہی ہیں، شاہین باغ کےمظاہر ین ہندوستانی پارلمینٹ،عدالت اور آئین کو نہیں مانتے۔ جو جماعتیں ان کی حمایت کر رہی ہیں وہی جماعتیں شعیب اِقبال اور امان اللہ خان کو اُمید واری دے رہی ہیں۔شاہین باغ کے مظاہرین پاکستانی اور بنگلہ دیشی ہیں، شاہین باغ غیر قانونی ہے اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا اسٹیج بن گیا ہے۔ شاہین باغ کی وجہ سے دہلی کے مسائل پر بحث نہیں ہو تی۔ بی جے پی کے لیڈران یہ سوال پو چھتے ہیں کہ دیش کے غداروں کو گولی ماروکہنے میںکیا غلط ہے،اور یہ دلیل پیش کی جا رہی ہے کہ ایسے نعرے لگا کر غداروں کے تعلق سے لوگ جذبات کااظہار کر رہے ہیں۔

پہلے کنہیا کمار کو ملک کا غدار قرار دیا گیا بعد میں عمر خالد اور اب شرجیل اِمام کو ملک کا غدار قرار دیا گیا ہے۔ کنہیا کمار کی بہ نسبت شرجیل کا ملک توڑ نے والالہجہ قابل اعتراض اوراشتعال انگیز ہے۔ بی جے پی نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ جے این یو کا طالب علم ہے اور شاہین باغ مظاہرہ کے پیچھے اسی کی حکمت عملی ہے۔خصوصاً شاہین باغ ہو یا ناگپاڑہ، ملک میںہر جگہ ہندوستان کا تر نگا جھنڈاہاتھوں میں لے کر سی اے اے کی مخالفت میں مظاہرے جاری ہیں ۔ان مظاہروں میں’ وی لو انڈیا، وی ہیٹ پاکستان‘ جیسے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔بی جے پی نے دہلی اسمبلی انتخابات میں شاہین باغ مظاہرہ کا مدعا کمال ہشیاری سے لا یا ہے اور اس شکنجہ میں تمام سیاسی جماعتیں پھنس گئی ہیں۔

[email protected]   : Mob: 9029449982

Leave A Reply

Your email address will not be published.