صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

پرشانت بھوشن نے اپنے علم اور جرأت سے ججوں اور ملک کو سبق سکھایا ہے۔ امیر شریعت

58,104

 

مونگیر :مشہور اورقابل ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ کی کاروائیوں پر مثالوں کے ساتھ تبصرہ کیاتھاجس پرسپریم کورٹ نے ازخود مقدمہ چلایا،یہ بات ۲۰۰۹ء کی ہے ،حالیہ دنوں میںسپریم کورٹ آن لائن شنوائی کررہاہے اورغیرمعمولی اہمیت والے مقدمات کی سماعت ہورہی ہے ،سپریم کورٹ نے گیارہ سال ٹھنڈے بستہ میں پڑے اس معاملہ کوبھی نمبرپرلے لیااورجن مثالوں کے ساتھ انہوں نے سپریم کورٹ پرالزام لگائے تھے سماعت کے دوران پرشانت بھوشن اورڈاکٹر راجیودھون کے اصرار کے باوجود کسی ایک مثال پربھی بات نہیں ہوئی اورسماعت مکمل ہوگئی۔ ظاہرہے ملزم سے پوری بات نہ سنناسپریم کورٹ کے وقارواعتبار کے شایان شان نہیں ہے ۔یہ بات امیرشریعت مولانامحمد ولی رحمانی نے ایک اخباری بیان میں کہی ۔

انہوں نے یہ بھی کہاکہ عدالتوں کی بے راہ روی پرکتابیں آچکی ہیں اورعدالتوں کے غیر جانبدارانہ رویہ پرانگلیاں اٹھتی رہی ہیں اورپڑھے لکھے لوگوں میں عدالتوں کے جانبدارانہ رویہ پرخوب تبصرے ہوئے ہیں ،خود بابری مسجد کیس میں جوفیصلہ سپریم کورٹ کاآیاہے وہ عدالتی تقاضوں کوپورانہیں کرتا،عدالت نے مسلم فریق کی تمام بنیاد ی باتو ں کومانااوراسکواپنے فیصلہ میں لکھااس کے بعد ججوں کی ذمہ داری تھی کہ ان حقائق کی بنیادپر فیصلہ سناتے لیکن اپنے خصوصی اختیارات کااستعمال کرتے ہوئے ججوں نے فیصلہ کردیااور بابری مسجد کی زمین ہندوفریق کودیدی۔

مولانامحمد ولی رحمانی نے یہ بات بھی کہی کہ یقیناًفیصلہ ہوگیامگر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے ۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ فیضان مصطفی نے یہ بات کہی ہے کہ مسلم فریق سپریم کورٹ میںوقف کوثابت نہیں کرسکا،لیکن یہ حقیقت نہیں ہے ،اگریہ بات ہوتی توجج حضرات اپنے فیصلہ میں اس کاذکر کرتے اوراپنے فیصلہ کی بنیاد اسی کوبناتے ،امیرشریعت نے یہ بھی کہاکہ انہی جیسے معاملات کو پرشانت بھوشن نے اٹھایااورسپریم کورٹ نے پوری بات سنے بغیرفیصلہ کاوقت دیدیااب جب فیصلہ کانمبر آیاتوسپریم کورٹ میں تاریخیں بڑھادیں،جس سے پڑھے لکھے لوگوں نے یہ سمجھاکہ سپریم کورٹ کواپنی غلطی کااحساس ہوگیا۔

انہوں نے کہاکہ یہ بات یادرکھنے والی ہے کہ چیف جسٹس کے عہدہ پررہتے ہوئے سپریم کورٹ کے چارسنیئرججوں نے بھی چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی اوراسمیں انہوں نے جوکچھ کہااسے بھارت جانتاہے، ان باتوںسے یہ فائدہ توہوسکتاہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ نوکری مل جائے، مگر فیصلوں کامعیارگرتاچلاجائیگااورعدالتوں پرشبہات کے دائرے گہرے ہوتے چلے جائیں گے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.