صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

’’مشاعرہ‘‘ کروالو ’’مشاعرہ‘‘

28,595

بوال الہ آبادی

ایک زمانہ تھا جب عروس البلاد ممبئی میں منعقد ہونے والے مشاعرے، ادبی نشستیں اور محفلیں پورے ہندوستان میں اردو ادب کی نمائندگی کرتے تھے ہمارے اساتذہ کرام  کے نقش قدم پرچلتے ہوئے آج وہی شعرائے کرام کامیابی و کامرانی کی منازل طئے کر رہے ہیں جواپنے کلام بلاغت سے اردو ادب کی صحیح معنوں میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ایسے سچے شعرائے کرام کا دست شفقت تادیر تک قائم رکھے۔

مگربڑے افسوس کے ساتھ ہمیں کہنا پڑ رہا ہے کہ کچھ متشاعر حضرات اردو ادب میں گھس آئے ہیں جو اردو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اردو پڑھ سکتے ہیں مگربے حیائی کی تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے سچے  شعرائے کرام کےمشہور اشعارپر سڑک چھاپ استادوں سے چند سکوں کے عوض سرقہ اورچربہ کرواکر بڑی ہی بے شرمی اوربے غیرتی کے ساتھ اردو مشاعروں میں پڑھ رہے ہیں۔

کچھ لوگوں نے تو مشاعروں کو روزگار کا ذریعہ بنالیاہے۔ اگر کوئی شخص اترپردیش، مدھیہ پردیش، بہار کے کسی گائوں سے ممبئی آتا ہے تو اس کو چاروں جانب سے گھیرلیتے ہیں (جس طرح فارس روڈ پر دلال لوگ گاہکوں کو گھیر لیتے ہیں) کہ ’’صاحب آپ ممبئی آئے ہیں آپ کے اعزازمیں ایک مشاعرہ ہونا چاہئے‘‘ مہمان کو اتنا مجبور کر دیتے ہیں کہ بے چارہ جان چھڑانے کے لئے چند روپئے ان کی جھولی میں ڈال کر مشاعرہ کروانے پر بادل نخواستہ راضی ہوجاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ لوگ مختلف ناموں سے مشاعرہ کرواتے ہیں مثلاً ’’ایک شام فلاں کے نام آل انڈیا مشاعرہ‘‘، کسی کے گھرختنہ ہوتا ہے تو’’جشن ختنہ آل انڈیا مشاعرہ‘‘کسی شخص کو کوئی عہدہ یا کرسی ملتی ہے تو ’’ایک شام محسن ادب کے نام آل انڈیا مشاعرہ‘‘ یہ لوگ اپنے آس پاس میں نظر رکھتے ہیں کسی کے گھر شادی کی بھنک ان کولگتی ہے فوراً پہنچ جاتے جس طرح ’’بیچ والے‘‘ ناچنے، گانے اور بجانے پہنچ جاتے ہیں اسی طرح یہ لوگ صاحب خانہ کے یہاں جاکر اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اتنا مجبور کردیتے ہیں کہ صاحب خانہ اپنے بچوں کا صدقہ اور خیرات سمجھ کر ان کے کاسے میں چند سکے ڈال کر ’’جشن شادی خانہ آبادی مشاعرہ‘‘ کرواتا ہے۔ ان سے بعید نہیں کہ کسی خاتون کاطلاق ہونے پر ’’جشن طلاق عالمی مشاعرہ‘‘ بھی کر ڈالیں، کسی خاتون کا شوہر فوت ہوجائے تو ’’ماتمی شام بیوہ کے نام آل انڈیا مشاعرہ‘‘ بھی منعقد کرڈالیں گے۔

گزشتہ دنوں ساکی ناکہ میں ایک مشاعرہ اردو ادب کے سچے خادموں نے منعقد کیا۔ میں مشاعرہ کا انعقاد کرنے والے تمام سچے محسن ادب کو بہ صمیم قلب مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ لوگ بے لوث اردو ادب کی آبیاری کے لئے صدق دل دامے، درمے، قدمے، سخنے اپنے فرائض کو احسن طریقےسے انجام دے رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اس مشاعرہ کے ترتیب کار(اردوادب میں اس طرح کے لفظ کی کوئی گنجائش نہیں) ’’جوکرہلابادی‘‘ تھے مشاعرہ بہت ہی شاندار رہا اس مشاعرے میں بیرون ممبئی سے کچھ شعرائے کرام اور شاعرات نے شرکت فرما کرچار چاند لگا دیئے۔ مقامی شعرائےکرام نے بھی اپنے کلام بلاغت سے سامعین کو محفوظ(محظوظ) فرمایا۔

اسی مشاعرے میں دو مقامی شعرائے کرام جوخالص اردو ادب کی محبت میں۷۰؍،۷۰؍روپئے آٹو رکشہ پرخرچ کرکے شریک ہوئے مگرمشاعرے کے اختتام پرخودساختہ ترتیب کار صاحب نے مقامی شعرائے کرام کوعلی الاعلان چنگیزی فرمان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’مقامی شعرائے کرام کے لئے کھانا نہیں ہے آپ لوگ اپنےاپنے گھروں پر جا کر کھانا کھائیں۔ جبکہ بیرونی شعرائے کرام کے لئے ہوٹل میں انتظام کیا گیا ہے لہٰذا مہمان شعرائے کرام اور شاعرات میرے ساتھ ہوٹل میں چل کر کھانا کھائیں‘‘۔ بے چارے مقامی شعرائے کرام منہ لٹکائے بے یارومددگار اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ (ایک شاعراپنےگھر جا کر تین دنوں کا باسی کھانا جوفریج میں رکھا ہواتھا کھانے پر مجبور ہوگیا)۔ مقامی شعرائے کرام کے ساتھ اس طرح کا سلوک چہ معنی دارد؟ مہمان شعرائے کرام کو موٹی موٹی رقوم کے لفافے دیئے گئے اور مقامی شعرائے کرام کو کھانے تک نہیں پوچھا گیا الٹا بےعزت کر کے بھگا دیا گیا۔

اس کے دوسرے روز اندھیری میں ایک پروگرام تھا اسٹیج پرخواتین و حضرات کو ملا کر کل ۱۱؍ لوگ براجمان تھے جبکہ سامعین کے لئے صرف اور صرف۱۵؍کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا جن میں ویڈیو شوٹنگ کرنے والے دو، مائک والے دولوگوں کےعلاوہ صرف اور صرف۱۰لوگ ہی سامعین میں موجود تھے اس مشاعرے کو’’آل انڈیا مشاعرہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس مشاعرے میں جوکرالہ آبادی کا نام نامی اسم گرامی شامل نہیں تھا مگر بے غیرت ہلا بادی نے اس مشاعرے میں گھس کر کلام سنایا۔ جوکر ہلابادی کا نام مشاعروں میں ہوتا ہی نہیں اس کے باوجود بے روک ٹوک گھس کر نہ صرف پڑھتا ہے بلکہ منتظمین کے اوپر احسان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’مسلسل کئی مہینوں سے سفر میں ہوں، بیماری کی وجہ سے آواز ساتھ نہیں دے رہی ہے، مگرمنتظمین مشاعرہ کی محبت میں چلا آیا ، کسی بڑے شہر کا نام لے کر کہتا ہے کہ وہاں جانا ہے‘‘ (سچائی تو یہ ہے کہ ساکی ناکہ کےعلاوہ کہیں اوراسےبلایابھی نہیں جاتا) مزید آگے فرماتے ہیں کہ ٹک ٹاک پر ملین لوگ مجھےدیکھتے ہیں(بچہ بچہ جانتا ہے’’ ٹک ٹاک‘‘ پربھارت میں پابندی لگی  ہے) جوکر ہلابادی جتنے کلام پڑھتے ہیں ایک بھی شعر ان کا اپنا نہیں ہوتا بلکہ استادوں کی مہربانی، کرم، نوازش کارفرما ہوتی ہے۔

وی ٹی کے ایک مشاعرے میں ایک سچے شاعر کے مجموعہ کلام کی اجرائی تقریب تھی جوکر ہلابادی صاحب بے بلائے گھس گئے۔ صاحب کتاب سے باربار اصرار کرنے لگے کہ میں بھی پڑھوں گا۔ مجبوراً ناظم مشاعرہ نے انہیں دعوت کلام دیا۔ مگر یہ کیا ان کے کلام سنانے کے بعد ناظم مشاعرہ نے ایک جملہ کہا کہ ’’بھائی غزل کسی استاد سے لکھوا کر لائوگے تو تلفظ سے پکڑے جائوگے‘‘ باہر نکل کر جوکر ہلابادی اول فول بکتے ہوئے نکل لئے۔ بقول راحت اندوری کے ؎ میرے کاروبار میں سب نے بڑی امداد کی/ گلااپنا، داد لوگوں کی، غزل استاد کی

Leave A Reply

Your email address will not be published.