صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

پاکستان کا آزادی مارچ

33,933

عارِف اگاسکر

گزشتہ دنوں پاکستان کے اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں دو ہفتوں تک وزیر اعظم عمران خان کے خلاف آزادی مارچ نکالا تھا ۔ جس کے بعد پاکستان میں دوبارہ سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ اور ان افواہوں نے زور پکڑا ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت کا تختہ پلٹ سکتا ہے؟ پاکستانی ذرائع ابلاغ بھی اس طرح کی قیاس آرائیاں کر رہا ہے ۔ ان افواہوں میں اس وقت اضافہ ہوا جب گزشتہ ہفتہ پاکستان کے فوجی جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کے درمیان دو ماہ بعد ملاقات ہوئی ۔ اس ملاقات کے دوران عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے کہا کہ وہ دو دن کے لیے رخصت پر جا رہے ہیں ۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا بیان ہے کہ سوائے عمران خان کے کسی کو بھی تحریک انصاف پارٹی سے وزیر اعظم بنادیں ۔ ان کو عمران خان سے مسئلہ ہے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ عمران خان کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔ عمران خان نے مزید کہا کہ یہ سب ڈرامے کر نے کی کو شش تھی کہ دباو ڈال کرکسی نہ کسی طرح ان کی بد عنوانیوں کے مقدمے سے پیچھے ہٹ جائیں ۔ لیکن مجھے ہارنا بھی آتا ہے اور جیتنا بھی ۔ ہار کر کھڑا رہنا بھی آتا ہے اور مقابلہ کر نا بھی ۔ انھوں نے چیلنج کر تے ہوئے کہا کہ وہ سب جو مرضی ہے کریں وہ کسی کو بھی نہیں بخشیں گے ۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ عزم ان افواہوں کی تردید کرتا ہے جو ان کے تعلق سے پھیلائی جارہی ہیں ۔

اس تعلق سے ۱۶؍ نومبر کےمراٹھی روز نامہ ’نو شکتی‘ کے کالم نویس پروفیسر اویناش کولھے اپنے کالم ’سیما پار‘ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان ایک عجیب ملک ہے جہاں پر جیسے ہی آمرانہ حکومت قائم ہوتی ہے ، انتخابات ہوتے ہیں اورمنتخب عوامی نمائندوں کی سرکار اقتدار میں آجاتی ہے ۔ یہ کہنے پر کہ اب وہاں پر جمہوریت اپنی جڑیں پکڑ رہی ہے وہاں پر فوجی بغاوت ہوجاتی ہے ۔ اور کسی مذہبی طاقت یا پارٹی کی قیادت کرنے والا لیڈرسر کار سے استعفیٰ کا مطالبہ کر تے ہوئے مورچ نکالتا ہے ۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کے استعفیٰ کے مطالبہ کو لے کر نکالا گیا آزادی مارچ اس کی مثال ہے ۔ جس میں یہ منطق پیش کی گئی تھی کہ ۲۰۱۸ء میں یعنی گزشتہ برس ہوئے عام انتخابات میں وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی نے بدعنوانی کے ذریعہ کامیابی حاصل کی تھی ۔

لاہور سے اسلام آباد تک نکالے گئے اس مارچ کا انعقاد مولا نا فضل الرحمٰن کی پارٹی نے کیا تھا ۔ جسے بھٹو کی پاکستان پیپلس پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز گروپ) کی حمایت حاصل رہی ہے جن کی مارچ میں برائے نام شمولیت تھی ۔ مارچ کے دوران مسلسل وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کا تذکرہ کیا گیا اور پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کے لیے عمران خان کی قیادت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا ۔ دیکھا جائے تو عوام کے ذریعہ منتخب سر کار کا استعفیٰ طلب کرنا صحیح نہیں ہے ۔ اگرسیاسی جماعت کے تعلق سے کوئی شکایات ہیں تو طریقہ یہ کہ آئندہ انتخابات میں اس جماعت کو شکست دی جائے ۔ پاکستان میں ۲۰۱۸ء کو ہوئے عام انتخابات میں عمران خان کی پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ اس کے تانے بانے کو سمجھنے کے لیے کچھ تفصیلات پر غور کرنا  پڑے گا ۔

پاکستانی قومی پارلمینٹ میں کل ۳۴۲؍ نشستیں ہیں جن میں سے ۷۰؍ نشستیں ریزرو ،۶۰؍ نشستیں خواتین اور ۱۰؍ نشستیں اقلیتی طبقہ کے لیے مختص ہوتی ہیں ۔ ہندوستان کی طرح پاکستان کی چار رِ یاستوں میں فیڈرل حکومتی نظام قائم ہے ۔ جہاں پر رِیاست پنجاب سے ۱۴۱؍، رِیاست سندھ سے ۶۱؍ ، رِیاست خیبر پختنواہ سے ۳۹؍ اور رِ یاست بلو چستان سے ۱۶؍ اراکین پارلیمان منتخب ہو تے ہیں ۔ اس کے علاوہ اسلام آباد شہر سے ۳؍ اور مرکز کے ما تحت رِ یاستوں سے ۱۲؍اراکین پارلیمان منتخب کیے جاتے ہیں ۔ پاکستان میں کل ۱۱۰؍ منظور شدہ سیاسی جماعتیں ہیں ، گزشتہ برس ہوئے عام انتخابات میں۱۰؍ کروڑ ۶۰؍لاکھ رائے د ہند گان کا اندراج کیا گیا تھا ۔ ہندوستان کی طرح پاکستانی پارلیمنٹ کی میعاد ۵؍ برس کے لیے ہوتی ہے ۔ اس سے قبل وہاں پر ۲۰۱۳ء میں عام انتخا بات ہو ئے تھے جس میں نواز شریف کی پارٹی کو زبر دست اکثریت حاصل ہوئی تھی ۔ تاہم اس مرتبہ ان کے چاہنے والوں نے مختلف سازشوں کے ذریعہ انھیں انتخابات سے دور رکھا ۔

۲۰۱۷ء میں ان پر بد عنوانی کے الزامات عائد کیے گئےاور انھیں وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کیا گیا ۔ لیکن حالیہ انتخا ب سے قبل وہاں کی عدالت نے انھیں ۱۰؍ برس قید کی سزا سنائی ہے ۔ آج نواز شریف جیل میں ہیں ۔ تقریباً ایسی ہی حالت پاکستان کی دوسری اہم پیپلس پارٹی کی ہے ۔ اس پارٹی پر بھٹو خاندان کی اجارہ داری ہے ۔ مذکورہ پارٹی کو ۳۰؍ نومبر ۱۹۶۷ء میں ذولفقار علی بھٹو نے قائم کیا تھا ۔ ۱۹۷۹ء میں فوجی حکومت کے ذریعہ ذولفقار علی بھٹوکو پھانسی دیئے جانے پراس پارٹی کی باگ ڈور ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے سنبھالی ۔ لیکن۲۷؍ دسمبر ۲۰۰۷ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی کی قیادت ان کے شوہر آصف زرداری اور بیٹا بلاول بھٹو کے پاس آئی آج اس پارٹی کی حالت بھی دگرگوں نظر آرہی ہے ۔

ایسے حالات میں جولائی ۲۰۱۸ء میں پاکستان میں عام انتخابات عمل میں آئے ۔ ووٹنگ سے قبل ہی واضح ہوگیا تھا کہ اس مر تبہ انتخا بات میں فوج نے عمران خان کی حمایت کی ہے نتیجتاًعمران خان کی پارٹی کامیابی حاصل کرے گی اور وہ پاکستان کے وزیر اعظم ہوں گے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں تھی ۔ لیکن فوج کی کھلے عام حمایت ہونے کے باوجود عمران خان کی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی اور عمران خان کو صرف ۱۱۹؍ نشستیں ہی حاصل ہوئیں ۔ جبکہ نواز شریف کی پارٹی نے ۶۴؍ اوربلاول بھٹو کی پارٹی نے ۴۳؍ نشستیں حاصل کیں ۔غور طلب بات یہ ہے کہ انتخابی نتائج کے تعلق سے پاکستان کی دو اہم پارٹیوں سمیت مذہبی جماعتوں نے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے ذریعہ فراہم کی گئی جانکاری کے مطابق اس انتخاب میں ۵۱ اعشاریہ ۸۵ فیصد ووٹنگ ہوئی ۔ جبکہ ۲۰۱۳ء میں ہوئی ووٹنگ کے تناسب میں یہ ووٹنگ ۳؍ فی صد کم ہوئی ہے ۔

مذکورہ انتخاب کا جائزہ لینے کے لیے آئے ہوئے یوروپین یونین کے آبزروروں نے اعلان کیا کہ منفی ماحول میں اس انتخابات کو عمل میں لایا گیا ہے ۔ مذکورہ انتخابات میں اپوزیشن پارٹیوں کو یکساں سطح پر مقابلہ کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔ ان تمام شکایات کے باوجود اس حقیقت کو قبول کرنا پڑے گا کہ آج عمران خان پاکستان کے وزیراعظم ہیں ۔ اس لیے ان کے ، ان کی پارٹی اور ان کی پالیسی کے تعلق سے جاننا ضروری ہے ۔ ۵؍ اکتوبر ۱۹۵۲ء کو پیدا ہونے والے عمران خان کو دُنیا مشہور کرکٹر کے نام سے جا نتی ہے جن کی قیادت میں پاکستان نے ۱۹۹۲ء میں ورلڈ کپ جیتا تھا ۔ لیکن اس کے بعد سے آج تک پاکستان کوئی ورلڈ کپ نہیں جیت سکا ۔

۱۹۹۲ء میں عمران خان نے کرکٹ کو خیر باد کہتے ہوئے اپریل ۱۹۹۶ء میں پاکستان تحریک انصاف پارٹی کی بنیاد رکھی ۔ ۲۰۰۲ءمیں ہوئے عام انتخابات میں انھوں نےحصہ لیا اور بطور رکن پارلیمان ایوان میں داخل ہوئے ۔ ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں وہ دوبارہ رکن پارلیمان بنے ۔ اس انتخاب میں ان کی پارٹی دوسرے نمبر پر تھی ۔ اسی انتخاب میں ان کی پارٹی نے حلیف پارٹیوں سے اتحاد کرکے رِیاست خیبر پختنوا ہ کا اقتدار حاصل کیا ۔ گزشتہ برس کے انتخاب میں ان کی پارٹی نے ۱۱۹؍ نشستیں حاصل کی تھیں اس کے باوجود ۱۳۷؍ کا کرشماتی ہندسہ حاصل کرنے کے لیے انھیں دیگر پارٹیوں سے سمجھوتہ کرنا پڑا ۔

پاکستان کی تمام بڑی اپوزیشن پارٹیاں جانتی ہیں کہ عمران خان کو فوجی حمایت حاصل ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کو چیلنج کرنا یعنی فوجی حکومت کو چیلنج کرنا ہے ۔ اس لیے پاکستان کی اپوزیشن پارٹیاں دیگر ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی اپوزیشن پارٹیوں کی طرح مثبت کام نہیں کرتی اور کر بھی نہیں سکتی ۔ وہاں کی اپوزیشن پارٹیوں کو مسلسل فوجی دباو میں رہنا پڑتا ہے ۔ صرف اسی وجہ سے نکالے گئے آزادی مارچ میں بڑی اپوزیشن پارٹیوں کی کمی نظر آئی اور مارچ ناکام ہوا ۔ عمران خان نے کمال ہو شیاری سےبڑی اپوزیشن پارٹیوں پر لگام کسی ہے ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف جیل میں ہیں جبکہ دوسرے اپوزیشن پارٹی کے لیڈر زرداری کے خلاف معاشی بدعنوانی کے لاتعداد الزامات ہیں اور وہ بھی جیل میں ہیں ۔ ایسے مخالف حالات میں مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ نکالا جس کی ستائش کی جا رہی ہے ۔ اگرچہ مارچ روایتی لحاظ سے کامیاب نہیں رہا پھر بھی اس کے ذریعہ عوامی غصہ کا اظہار ہوا ہے اس میں دو رائے نہیں ہے ۔

مولانا کے ذریعہ عمران خان کے استعفیٰ کے مطالبہ کی وجہ سے ان کے ذریعہ پیش کیا گیا دوسرا مدعا عدم توجہی کا شکار رہا ۔ وہ دوسرا مدعا یعنی پاکستان کی سیاست میں فوجی مداخلت ہے ۔ مولانا کے الزام کے مطابق پاکستانی انتخابی نتائج فوج کی مرضی کے مطابق ہی ظاہر کیے جا تے ہیں ۔ مولانا کے اس الزام کی فوج کے ترجمان نےتر دید کی ہے لیکن اس پر کسی کو اعتماد نہیں ہے ۔ مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے بعد پاکستان کے اقتدار میں تبدیلی آئے گی اس کی کسی کو امید نہیں تھی ۔ ان کے مطابق جلد ہی آزادی مارچ کا نشہ اُتر جائے گا ۔ لیکن اس موقع پر مولانا کے ذریعہ پیش کیے گئے فوجی مداخلت کے مدعے پر پاکستان کوآج یا کل بحث کر نا ہو گی ۔ جس ملک کی فوج سیاسی سوچ رکھتی ہے وہاں پر کبھی مکمل طور پر جمہوریت کی آبیاری نہیں ہو سکتی ۔

[email protected]  Mob:9029449982

Leave A Reply

Your email address will not be published.