صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

ٹائمز آف انڈیا کے صحافی محمد وجیہ الدین کی کتاب ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ کا اجرا

79,303

مصنف نے اس موقع پر کہا ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جدید تہذیب کا گہوارہ ہے ، یہاں سبھی مذاہب ، رنگ و نسل کے طلبہ زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں ‘‘

  ممبئی: ٹائمز آف انڈیا کے صحافی محمد وجیہ الدین نے کورونا کے سبب حالیہ لاک ڈائون کی فراغت کا استعمال کرتے ہوئے علی مسلم یونیورسٹی پر ایک عدد کتاب کا اضافہ کردیا ہے ۔ کتاب دو سو سترہ صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت ۳۹۹ ؍روپئے ہے اور یہ آمیزون سمیت سبھی اہم کتب اسٹالوں پر دستیاب ہے ۔ مذکورہ کتاب کی تشہیر کیلئے منعقد پریس کانفرنس میں پریس کلب کے چیئر مین گر بیر سنگھ ، اشتیاق علی ، جتن دیسائی اور خود مصنف وجیہ الدین نے کتاب کے تعلق سے پریس کے لوگوں کو معلومات فراہم کی۔

ممبئی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صرف مسلمانوں کی یونیورسٹی نہیں ہے یہاں تمام مذاہب کے طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں مسلم یونیورسٹی میں مسلم تہذیب ضرور ہے۔ اس کی تاریخی حیثیت سے کوئی بھی اسے علیحدہ نہیں کر سکتا ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایک صدی گزر گئی ہے اور اس کے طلبا ہر شعبہ حیات سے وابستہ ہیں ۔ اے ایم یو کا شمار ملک کی بہترین یونیورسٹی میں ہو تا ہے ۔ اے ایم یو کیمپس انتہائی سر گرم اور فعال رہا ہے۔ اس کیفعالیت نےملک کو قومی لیڈر اوراہم شخصیات بھی دئیےہیں۔ اس قسم کا اظہارخیال ’’علیگڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ کتاب کےمصنف اور اخبار ٹائمز آف انڈیا کے صحافی وجیہ الدین نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں کوئی اسکالر نہیں ہوں ۔ سرسید احمد نے اس یونیورسٹی کومسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے شروع کیا تھا ،یہ تعلیمی تحریک سرسید کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ جسے انہوں نے اپنے خون جگر سے سینچا ۔

مسلم یونیورسٹی تحریک آزادی کا محور و مرکز بھی بنا مولانا محمد علی مولانا شوکت علی مجاہد آزادی گاندھی جی کے ساتھ مل کر  آزادی کی لڑائی میں پیش پیش تھے اور ایک وقت وہ تھا جب یہاں تحریک آزادی سے وابستہ اہم شخصیات نے طلبہ کے درمیان جذبہ حریت بیدار کیا۔یہ وہ مقام ہے جس سے محمد علی جناح بھی وابستہ تھے، ڈاکٹر ذاکر حسین بھی اسی یونیورسٹی پروردہ  تھے۔ وجیہ الدین کی مذکورہ کتاب سر سید کے خواب علی گڑھ تحریک کے انہی پہلوئوں پر متوجہ کرتی ہے ۔

سر سید کی تحریک اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر کئی کتابیں آئیں اور آئندہ بھی اس کے تعلق سے لکھا جاتا رہے گا ۔محمد وجیہ الدین نے بھی انہی نکات پر خاص توجہ دی ہے کہ اس کا خواب سرسید نےدیکھا تھااور اسے شرمندہ تعبیربھی کیا ۔اس نےکئی لیڈران ہی نہیں دئیےہیں بلکہ اس کےطلبا ملک بیرون ملک میں بھی اسی کے بدولت علم کی شمع  روشن کر رہے ہیں۔

 

پریس کلب کے چیئرمین گربیر سنگھ نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام سرسید کی کاوش کا نتیجہ ہے ۔ان کے مطابق اس یونیورسٹی میں مذہب کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی اس سے لبرل طلبا ہی پیدا ہوئے ہیں ۔ دو قومی نظریہ کے حامی جناح تھے اور یہی دو قومی نظریہ کا ثبوت ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش کی تقسیم عمل میں آئی ۔ انہوں نے کہا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو برطانیہ کے دور میں قائم کیا گیا اس کےباوجود یہاں ملکی جذبات اور قومی حمیت کے معاملہ میں ہمیشہ آگے ہی آگے رہا ۔ اسی یونیورسٹی سے محمد علی جناح کا تعلق بھی رہا ہے اور بدقسمتی سےوہ قائد اعظم پاکستان ہیں۔ اس لئے اس یونیورسٹی کے طلبا سے قومیت کا ثبوت مانگاجاتا ہے جو غلط ہے جبکہ وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ اے ایم یو ایک چھوٹا ہندوستان ہے ۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم اشتیاق علی نے کہا کہ علی گڑھ یونیورسٹی ایک تاریخی ادارہ ہے۔اس کتاب میںاس کے کئی گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سرسید کی حیات و خدمات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے ، علی گڑھ کی ایک منفرد شناخت ہے۔ سرسید احمد خاں کی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو تقسیم ہند سے قبل اور بعد سیاسی مقصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کو ایک گروپ نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے اور اس میں ہمیشہ بدنظمی  پیدا کرنے کی گئی ہے۔ تقسیم وطن کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو زمینداروں کی یونیورسٹی بھی قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن یہ یونیورسٹی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا گہوارہ ہے۔ یہاں ہندو مسلمان میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کوئی تعصب ہے ۔ یہ جدید طرز تعلیم کا باوقار ادارہ ہے ۔ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی اس یونیورسٹی سے سیراب ہورہے ہیں ۔ پنجاب کے کئی طلبا سکھ اور ہندو اس یونیورسٹی سے وابستہ تھے جبکہ یہ یونیورسٹی سب کے لئے ہے اس پر مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں ہے صرف مسلم کے لفظ پر اسے سیاست کا شکار بنایا جاتا ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.