صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

جماعت اسلامی ہند نے مفاد عامہ کی خاطر عوامی منشور برائے 17 واں لوک سبھا پارلیمانی الیکشن 2019ء جاری کیا 

اٹھارہ نکات پر مشتمل مذکورہ عوامی منشور میں پولس اصلاحات اور غیر سودی بنکنگ جیسے اہم اور نظر انداز کئے جانے والے پوائنٹ بھی شامل

1,775

جماعت اسلامی ہند نے مفاد عامہ کی خاطر عوامی منشور برائے 17 واں لوک سبھا پارلیمانی الیکشن 2019ء جاری کیا ہے جسے ہم قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے مدنظر یہاں پیش کررہے ہیں ۔
( الف ) تعا رف :
بھارت ایک خود مختار، سیکولر اور جمہوری ملک ہے ۔ ملک کے آئین نے ایک ایسی مملکت کا تصور دیا ہے جو عدل،آزادی، مساوات اور اخوت کی قدروں کی بنیادوں پر کھڑی ہو، جہاں ملک کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور سب کو مساوی مواقع حاصل ہوں۔آئین ہند کی دفعہ 38 نے واضح طور پر ایک فلاحی ریاست کا تصورپیش کیا ہے اور اسے حکومت کی ذمہ داری قراردی ہے کہ وہ ملک کے شہریوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ مختلف طبقات کے درمیان بھی معاشی و سماجی تفاوت کم کرنے کی کوشش کرے۔
تاریخی اعتبار سے ہندوستان ایک تکثیری سماج کا حامل ملک ہے جہاں کئی مذاہب، ذاتوں، زبانوں اور تہذیبوں کے لوگ اپنے اپنے حدود میں خوشی خوشی رہتے بستے آرہے ہیں۔اس لیے ہماری پارلیمنٹ کو ہندوستانی سماج کے اس تنوع کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔
اگرچہ ہندوستان نے سائنس و تکنالوجی، صنعت، تعلیم وغیرہ جیسے کئی میدانوں میں کافی ترقی کی ہے لیکن ہمارے ملک کی آبادی کی ایک بڑی اکثریت اس ترقی کے ثمرات سے محروم ہے۔ملک کی اس غیر مساویانہ اور ناہموار ترقی کی وجہ سے سماجی ناانصافی اور معاشی عدم مساوات کا مسئلہ آج بھی زندہ ہے۔
ملک اپریل ومئی 2019ء میں 17 ویں لوک سبھا (پارلیمانی) انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے۔2014ء کے عام انتخابات کے بعد، گذشتہ پانچ سال کی حکمرانی نے سب سے زیادہ دستور ہند کے اساسی تصورات پر ضرب لگائی ہے۔سرمایہ داروں کے ساتھ سیاست دانوں کا ناپاک گٹھ جوڑ انتہائی طاقتور ہوچکا ہے اور اس نے ملک میں ایک ایسے معاشی نظام کو پروان چڑھا یا ہے جس نے امیری اور غریبی کے درمیان بڑھتے ہوئے فر ق کی رفتار کوعروج پر پہنچادیا اور آج ہمارا ملک نابرابری کے اعتبار سے دنیا کے بدترین ملکوں میں سے ایک ہے۔بے روزگاری عروج پر ہے اور عام آدمی کے سارے مفادات چند سرمایہ داروں کی چوکھٹ پر قربان کردیئے گئے ہیں۔
کمزور طبقات اور اقلیتوں کے اندر عدم سلامتی کا احساس اتنا زیادہ کبھی نہیں تھا۔ دلت ہر جگہ خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔آدیباسیوں کی زمینیں اب اور زیادہ خطرات او ر کارپوریٹ استبداد کی شکار ہیں۔ کسان بدترین زرعی بحران کا سامنا کررہے ہیں۔ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کی جانیں سستی ہوچکی ہیں۔سچر کمیٹی کی سفارشات کے بعد ان کی معاشی و سماجی ترقی کے لیے جو کچھ کمزور اور ناکافی تدابیر اختیار کی جانے لگی تھیں، وہ بھی اب رفتہ رفتہ قصۂ پارینہ بنتی جارہی ہیں۔اب مسلمانوں کا پرسنل لا، ان کا دینی وتہذیبی تشخص اور ان کے بنیادی مذہبی و تہذیبی حقوق ہی داؤ پر ہیں۔
کرپشن ، جس کا خاتمہ موجودہ حکمرانوں کا اہم ترین انتخابی نعرہ تھا، اب ایک بے قابو اور بھیانک عفریت کا روپ اختیار کرچکا ہے اور اعلی ترین اداروں تک میں نفوذ کرکے باقاعدہ ادارہ جاتی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے آزاد جمہوری ادارے ، استبدادی و فسطائی رجحانات کی زد میں ہیں ۔ ان کی آزادی و خود مختاری، جو ملک کے جمہوری نظام کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے ، اب بری طرح مجروح ہے۔سی بی آئی ، ویجلنس کمیشن ، ریزرو بنک وغیرہ جیسے اداروں سے آگے بڑھ کر اب الیکشن کمیشن اور عدالت عظمیٰ کی آزادی پر بھی شکوک کا اظہار ہونے لگا ہے جو ملک کی جمہوریت کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے۔
لیکن مذکورہ بالا حالات کے باوجود ہندوستان بحیثیت مجموعی کبھی انتشار کا شکار نہیں ہوگا۔ہمیں امید ہے کہ 2019ء  کے انتخابات کے بعد ایسی طاقتیں برسراقتدار آئیں گی جو ملک کی جمہوری و دستوری قدروں میں یقین رکھتی ہیں ۔ ہم ان سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان قدروں کے تحفظ و فروغ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں گی اور آئندہ بھی انہیں سیاست دانوں کی دست درازیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری پیش بندیاں کریں گی ۔
یہ واقعہ ہے کہ خوفِ خدا اور اخلاق و روحانیت وہ عوامل ہیں، جو ایک کامل اور منضبط سماج کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مذہب کا استعمال زیادہ تر اختلافات کو ہوا دینے، سماج میں تفرقہ برپا کرنے اور کمزوروں کا استحصال کرنے کے لیے کیا جاتا رہا ہے، جب کہ مذہب کی حقیقی روح بیدار کی جائے توہندوستان جیسے مذہبی سماج میں مذہبی، اخلاقی اور روحانی اقدار ایک صحت مند سماجی انقلاب برپا کرنے میں تعمیری کردار اداکر سکتی ہیں۔
جماعت اسلامی ہند، ایک خالق و مالک کی بندگی کی دعوت کی علم بردار تحریک ہے۔ ہم اہل ملک کو، تمام سیاسی جماعتوں کو اور عوامی نمائندگی کے امیدواروں کو اپنے پیدا کرنے والے کی مخلصانہ بندگی کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے سامنے جواب دہی کے احساس کو زندہ رکھنے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔اس احساس کو ہم ووٹ دینے والوں کے لیے بھی ضروری سمجھتے ہیں اور ووٹ مانگنے والوں کے لیے بھی۔ اسی سے سچی انسان دوستی ، بے لاگ عدل اورحقیقی مساوات کو ملک میں پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ خالق کی سچی بندگی ہی انسانوں کے درمیان پائیدار عدل کی واحد اور یقینی ضمانت ہے۔
جماعت اسلامی ہند اس عوامی منشور کو ملک کے رائے دہندوں اور سیاسی جماعتوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے مسرت محسوس کرتی ہے۔یہ عوامی منشور جہاں ایک جانب عوام کے دل کی آواز ہے ، وہیں مختلف سیاسی جماعتوں کے لیے بہتر حکمرانی کا ایک چارٹر بھی ہے۔ جماعت اسلامی ہند ملک کی انتخابی سیاست میں راست حصہ نہیں لیتی لیکن اعلی اخلاقی و انسانی اقدار، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارہ ،تمام طبقات کی ترقی اور انصاف پر مبنی حکمرانی کویقینی بنانے میں اپنا رول ادا کرتی ہے ۔
ہم بیدار مغز سیاسی جماعتوں اور امیدواروں سے اس منشور کی حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔ منشور سے متفق ہوکر وہ انتخابات میں حصہ لیں تو اُن کو صالح عناصر کی تائید حاصل ہو سکے گی اور وہ ملک کو صحیح رخ دینے میں کامیاب ہوں گے۔

( ب ) حکومت کا فرضِ منصبی :
ایک تکثیری، ترقی پسند اور وسیع الظرف(inclusive) ہندوستان کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے درج ذیل نکات کو ہر سنجیدہ سیاسی پارٹی کے مقاصد میں شامل ہونا چاہئے :

(1) تمام شہریوں کے لیے خوراک، لباس، مکان، تعلیم، صحت اور باوقار زندگی کی ضمانت نیز منصفانہ تصورِ ترقی پر مبنی فلاحی ریاست کا قیام۔
(2) ظلم، تشدد، مذہبی جارحیت، ہجومی تشدد،ریاستی مظالم اور فرقہ وارانہ فسادات کا موثرانسداد، غریبوں، عورتوں ، مسلمانوں اور ملک کے غیر محفوظ طبقات کے تحفظ کو یقینی بنانا۔
(3) درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، مسلمانوں، سماج کے دیگر محروم طبقات دیہی علاقوں، ملک کے محروم خطوں کی ہمہ جہت ترقی اورتقویت (empowerment) پر خصوصی توجہ دے کر ملکی فضا میں صحت مند تبدیلی لانا۔
(4) اقلیتوں اور تہذیبی و لسانی اکائیوں کے مذہبی اور تہذیبی حقوق کا تحفظ، ان کے پرسنل لا کا تحفظ، ان کی عبادت گاہوں، اور مذہبی شعائر کا تحفظ اور ان شعائر کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کا سختی سے سد باب۔
(5) کرپشن ،بے حیائی ،جنسی جرائم، اقربا پروری، سیاست میں مجرمانہ عناصر کے نفوذ،ناروا امتیازات اور تفرقہ اندازی جیسی برائیوں کے خلاف موثر اقدام ،دیانت و امانت، عفت و عصمت اوروسعت نظر کی قدروں کا فروغ ہر کمیونٹی کے تشخص کا احترام ریاستی مشینری اور سیاسی ڈھانچہ کو اخلاقی اقدار کا پابند بنانا۔

( ج ) پالیسی ساز اقدامات :
جو پارٹیاں عوام کی تائید چاہتی ہیں، ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ درج بالا مقاصد کے حصول کے لیے واضح الفاظ میں درج ذیل قانونی و پالیسی ساز اقدامات پر مبنی 18 نکاتی پروگرام کے نفاذ کا وعدہ کریں :
(1) ضروریات زندگی کا حق:
دستور کے حصہ سوم میں مناسب ترمیم کی جائے جس کے ذریعہ ملک کے تمام شہریوں کی ضروریاتِ زندگی کے حق "right to livelihood”کو تسلیم کیا جائے ۔ اس کے تحت مناسب مقدار میں صحت بخش غذا، لباس، مکان، تعلیم اور صحت جیسی ضروریات کی ، ہر شہری کوفراہمی کی ضمانت ہو۔اس دستوری ترمیم کے نفاذ کے لیے ضروری قوانین بنائے جائیں اور بجٹ میں بھرپور گنجائش فراہم کی جائے ۔
(2) ریزرویشن:
ساری دنیا میں تحفظات اور دیگر اثباتی کاروائیاں Affirmative Actions محروم اور کمزور طبقات کو اوپر اٹھانے کے لیے اختیار کی جاتی ہیں۔مسلمانوں کی ہمہ جہت پسماندگی کی وجہ سے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان کے لیے تحفظات کی پالیسی اختیار کی جائے۔ لہٰذا رنگناتھ مشرا کمیٹی رپورٹ کو نافذ کیا جائے۔ تعلیم اور ملازمتوں میں اقلیتوں کے لیے ریزرویشن دیا جائے ، جس میں دو تہائی ذیلی کوٹا مسلم اقلیت کے لیے محفوظ ہو۔
(3) جمہوری اداروں کی خود مختاری اور استحکام:
جمہوری اداروں کے استحکام اور ان کی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کئے جائیں ۔ ان اداروں کی خود مختاری کے لیے ضروری ہے کہ ان سے متعلق تقررات وغیرہ پر حکومت کا کنٹرول ختم کیا جائے ۔ میڈیا کی آزادی اور ذمہ دارانہ رویہ کو یقینی بنانے نیز غلط خبروں اور گمراہ کن پروپگنڈہ کی روک تھام کے لیے قانونی اصلاحات کی جائیں اور پریس کونسل کو قانونی اختیارات دیے جائیں۔ لوک پال کے دائرے میں سیاسی جماعتوں اور بڑے تجارتی اداروں کو بھی لایا جائے ۔ سبھی سرکاری کاموں اور معاملات میں مکمل شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے e-governance کو رائج کیا جائے ۔
(4) روزگار کی ضمانت:
مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار ضمانت MGNREGA قانون میں ترمیم کے ذریعہ سال کے پورے 365 دن روزگار کی ضمانت ہو۔ اسی طرح کا ایک قانون شہروں میں رہنے والے غرباء کے لیے بنا یا جائے۔کمپنیوں کی سماجی ذمہ داری Corporate Social Responsibility کے اصول کے تحت قانون بنا کر نجی شعبے کو دیہی علاقوں میں روزگار پیدا کرنے کے لیے موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔
(5) معاشی عدل پر مبنی ترقی:
ملک کی معیشت کی اس طرح تنظیم نو کی جائے کہ جس کے ذریعہ دولت کی افزائش بھی ہو اور اس کی مناسب تقسیم بھی۔ اس کے لیے زرعی معیشت، مینوفیکچرنگ اور چھوٹی تجارتوں کو فروغ دیا جائے۔گھریلو اور مختلف علاقوں کی روایتی مقامی صنعتوں، روایتی ہنرمندوں وغیرہ کے کاروبار کے تحفظ و فروغ کے لیے مدد اور قانونی اقدامات کیے جائیں۔ اہم شعبوں میں بڑی عالمی کمپنیوں کے داخلہ اور راست بیرونی سرمایہ کاری پر روک لگائی جائے۔بے لگام نجکاری کو روکا جائے۔ ایس ای زیڈ(SEZ) کے قوانین میں ترمیم کرکے انہیں غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کے لیے معاون اور سازگار بنایا جائے۔عوامی سرمائے سے اور بنکوں کے اثاثوں سے سرمایہ داروں کے مفادات کی ناجائز تکمیل اور سرکاری کاموں خصوصاً دفاعی معاملات میں اپنے حمایتی سرمایہ داروں کی ناجائز طریقوں سے مدد کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے۔
(6) زرعی اصلاحات اور کسانوں کے مسائل:
زرعی سیکٹر کو فروغ دینے کے لیے جامع پالیسی وضع کی جائے اور اس کا نفاذ ہو۔کسانوں کے لیے قومی کمیشن (ایم ایس سوامی ناتھن کمیشن)کی سفارشات نافذ ہوں۔ خاص طور پرزرعی پیداوار کی لاگت سے ڈیڑھ گنا کم سے کم قیمت اور زرعی زمینوں کی فروخت اور ان کی تحویل کے سلسلہ میں کمیشن کے تجویز کردہ ضوابط کو فوری نافذ کیا جائے۔ کارپوریٹ کھیتی اورموہوم سودوں Future Selling کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ فصل کے نقصان کی صورت میں کسانوں کی مدد کے لیے Calamity Fund کے طرز پر فنڈ قائم کیا جائے۔
(7) ٹیکس اور مالیاتی اصلاحات:
سماجی و انسانی فلاح و بہبود میں حکومتی رول کو بڑھانے اور اس مقصد کے لیے مالیہ کے حصول کی خاطر ضروری مالیاتی اصلاحات کی جائیں۔ مالدار طبقہ پر ٹیکس زیادہ ہو۔ بالواسطہ ٹیکسوں (Indirect Taxes) کے مقابلے میں بلاواسطہ ٹیکسوں (Direct Taxes)کی شرح میں اضافہ کیا جائے ۔ جی ایس ٹی میں اصلاحات لائی جائیں۔ اس کی پیچیدگی دور کی جائے ۔ چھوٹے تاجروں اور عام لوگوں کی ضرورت کی چیزوں کو استثنیٰ دیا جائے ۔ پٹرول و ڈیزل پر غیر ضروری ٹیکس کم کیے جائیں اور مجوعی طور پر ٹیکس کے پورے نظام کی اس طرح تشکیل نو ہو کہ موجودہ کارپوریٹ اور امیر دوست نظام کی بجائے یہ زیادہ سے زیادہ غریب عوام کے مفادات سے قریب تر ہوسکے ۔
(8) مذہبی بنیاد پر مظالم کا انسداد:
اقلیتوں پر ہورہے مسلسل مظالم کے سدباب کے لیے ایک ہمہ گیر قانون وضع کیا جائے جس کے ذریعہ ہجومی تشدد کے لیے ورغلانے والوں اور اس میں ملوث افراد کی شناخت ، گرفتاری اور انہیں سخت سزاد ینا ممکن ہو۔ اسی طرح نیشنل ایڈوائزری کونسل کی جانب سے پیش کردہ فرقہ وارانہ فسادات (حفظ ماتقدم، انسداد اور متاثرین کی باز آبادکاری) بل کی اہم دفعات بھی اس میں شامل ہوں۔ سماجی بائیکاٹ کے انسداد سے متعلق ضروری دفعات بھی موجود ہوں اور خاص طور پر نفرت انگیز تقاریر، بیانات، غلط خبروں اور افواہو ں کی ترویج پر سخت تادیب شامل ہو۔
(9) اقلیتوں کے تہذیبی و مذہبی حقوق:
اقلیتوں کے مذہبی و تہذیبی حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی جائے۔ تین طلاق سے متعلق بل ، جو لوک سبھا میں منظور ہوا ہے اور راجیہ سبھا کے ایجنڈا میں شامل ہے، اُسے فوری واپس لیا جائے اور اس بات کی ضمانت دی جائے کہ پرسنل لامیں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ اقلیتی تعلیمی اداروں بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کی حفاظت کی ضمانت دی جائے۔ بعض ریاستوں میں اقلیتوں کے آزادانہ عبادت کے حق، ضمیر کی آزادی، اپنے تہذیبی اور مذہبی تصورات کے مطابق تعلیم حاصل کرنے اور حجاب یا مرضی کا لباس پہننے کے حق وغیرہ میں مختلف بہانوں سے مداخلت کی کوشش ہوتی رہی ہے، ایسی کوششوں کا سد باب کیا جائے۔
(10) پولیس نظام میں اصلاحات:
پولس فورس کو مستعد (Professional) اور انسان دوست بنانے کے لیے قومی پولس کمیشن کی سفارشات نافذ کی جائیں اور پولس نظام میں ہمہ گیر اصلاح کی جائے۔ پولس فورس کو سب کی نمائندہ اور غیر متعصب بنانے کے لیے اس فورس میں اقلیتوں کے لیے 25 فی صد ریزرویشن ہو۔قومی کمیشن برائے اقلیت کی پولیس نظام سے متعلق سفارشات نافذ کی جائیں۔
(11) سچر کمیٹی کی سفارشات:
سچر کمیٹی رپورٹ کے مجوزہ ’ اشاریہ تنوع‘ Diversity Index Concept کوکنڈو کمیٹی کی سفارشات کے مطابق، حکومتی و نجی شعبوں میں نافذ کیا جائے تاکہ دلتوں، مسلمانوں و دیگر محروم طبقات کو بہتر مواقع میسر آسکیں۔ تمام حکومتی امداد و عطیات اس Diversity Index Concept پر مبنی ہوں۔مساوی مواقع کمیشن کو دستوری اور قانونی اختیارات کے ساتھ قائم کیا جائے۔ان سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے علاوہ درج فہرست ذاتوں اور طبقات کے خلاف بھی ناانصافی کا ازالہ ہوگا اور نجی سیکٹر میں بھی ان کی مناسب نمائندگی ہوسکے گی۔ سچر کمیٹی کی دیگر تمام سفارشات کو ان کی حقیقی اسپرٹ کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ تمام سرکاری اسکیموں میں مسلم ذیلی منصوبہ (Muslim Component Plan) شامل کیا جائے۔
(12) تعلیمی پالیسی کا رویو:
نئی تعلیمی پالیسی پر فوراً مکمل ریویو کیا جائے اور ریویو کے عمل میں سماج کے تمام طبقات کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ خصوصاً تعلیمی پالیسی اور نصاب تعلیم کی تشکیل میں، مخصوص تہذیب اور مذہبی عقائد اور قدروں کے تسلط کی کوششوں کی روک تھام کے لیے ٹھوس پالیسی مرکزی سطح پر تشکیل دی جائے۔ تعلیم پر جی ڈی پی کے کم سے کم 8 فیصد خرچ کو یقینی بنایا جائے۔ پرائمری تعلیم پرخرچ کا تناسب جس طرح مسلسل کم کیا جارہا ہے اس کو بدلا جائے ۔ مسلمان اور تعلیمی اعتبار سے کمزور دیگر طبقات کی تعلیمی ترقی کے لیے خصوصی اسکیمیں نافذ کی جائیں۔
(13) سلامتی سے متعلق قوانین:
مرکزی سطح کے تمام سیکورٹی قوانین مثلاً NSA, AFSPA, UAPA اوراس طرح کے ریاستی قوانین، نیز IPC, IT Act 2000 و دیگر قوانین میں ترمیمات کی جائیں اور انہیں بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق International Covenant of Civil and Political Rights کے بیان کردہ اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ اسی طرح تعذیب کے خلاف معاہدہ Convention against Torture and other Cruel, Inhuman, or Degrading Treatment or Punishment اور اس کے اختیاری پروٹوکول یعنی
International Convention for the Protection of
All Persons from Enforced Disappearance کی توثیق کی جائے اور کنونشنز کی تجاویزکے مطابق ملکی قوانین میں مناسب ترمیم ہو ۔
(14) دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات کی تحقیق:
ایک آزاد عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس کے ذریعہ تخریب کاری ودہشت گردی اور ہجومی تشددکے واقعات اور الزامات کی منصفانہ تحقیق ہو۔ان سے متعلق مقدمات کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتوں کے قیام کی راہ ہموارکی جائے۔ نا معقول قوانین اور دھاندلی کے شکار متاثرین کے لیے تلافی اور معاوضہ کا نظم کیا جائے اور فرضی مقدمات کے ذریعہ بے گناہوں کو پھنسانے والوں کو سزا دی جائے۔ اس کے لیے مناسب دفعات کا متعلقہ قوانین میں اضافہ کیا جائے۔
(15) آسام اور جموں و کشمیر کے مسائل:
قانون شہریت میں ترمیم کا بل (جو لوک سبھا میں منظور کیا گیا ہے) فوری واپس لیا جائے۔ یہ بل دستور ہند کی واضح ہدایات کے خلاف مذہبی تفریق پر مبنی ہے۔اسی طرح قومی رجسٹر برائے شہریان (NRC) کے نام پر ہراسانی کو فوری ختم کیا جائے کیوں کہ آسام کے غریب عوام بنگلہ دیشی نہیں بلکہ اندرون ملک نقل مکانی کیے ہوئے بنگالی لوگ ہیں۔ان غریب عوام کی شہریت کے ریکارڈز کو درست کرنے اور ان کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے موزوں انتظام کیا جائے۔غیر ملکیوں کی شناخت کا کوئی معقول انتظام، تمام طبقات کی شمولیت کے ساتھ بنایا جائے اور ایسے غیر ملکیوں سے عالمی قوانین کے مطابق معاملہ کیا جائے۔اسی طرح جموں و کشمیر میں تشدد اور انسانی ہلاکتوں کے سلسلہ کو فوری روکا جائے اور یہاں کے عوامی نمائندوں کو نظم و نسق کی ذمہ داری حوالے کرکے شہری معاملات میں فوج کے رول کو کم سے کم کیا جائے۔
(16) غیر سودی بنک کاری:
بینکنگ میں غیر سودی مالیات کو متعارف کرایا جائے۔ ڈاکٹر رگھورام راجن کی سرکردگی میں پلاننگ کمیشن کی Financial Sector Reforms مالیاتی شعبہ میں اصلاحات سے متعلق کمیٹی اور دیگر متعدد کمیٹیوں کی سفارش کے مطابق ، اقلیتوں اور کمزور طبقات کے مفاد کے پیش نظر نیز ملک کی معیشت کی ترقی کے مقصد سے ملک میں بلاسودی اور شراکت پر مبنی بنکوں کو کام کی اجازت دی جائے، اسٹیٹ بنک آف انڈیا نے شریعت کے مطابق جس ایکویٹی فنڈ کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا ، اسے فوری لانچ کیا جائے اور انشورنس کے شعبہ میں تکافل کی اجازت دی جائے۔
(17) وقف جائیدادوں کی حفاظت اور ان کا بہتر استعمال:
وقف ایکٹ2013ء ؁ میں ترمیم کرکے ،جوائنٹ پارلیمینٹری کمیٹی کی تمام سفارشات کو اس میں شامل کیا جائے۔ خاص طور پر وقف قانون کو ریاستوں کے رینٹ کنٹرول قوانین اور ریونیو قوانین پر فوقیت دینا، متعین وقفے کے ساتھ سروے کو لازمی قرار دینا، سروے رپورٹ کو انٹرنیٹ پر دستیاب رکھنا، سی ای او کو قبضہ ہٹانے کے سلسلہ میں مجسٹریٹ اختیارات دینا، قبضہ ہٹانے میں ناکام سرکاری افسران کو سزا دینا، کسی غیر جانب دار اہم شخصیت کو وقف کونسل کا صدر بنانا جیسی سفارشات کو لازماً وقف ایکٹ کا حصہ بنایا جائے۔ وقف املاک کو سرکاری املاک کی طرح تحفظ دینے سے متعلق بل The Waqf Properties ( Eviction of
Unauthorised Occupants) Bill, 2014
کئی سالوں سے زیر التوا ہے۔ اسے فوری منظور کیا جائے اور سچر کمیٹی کی سفارش کے مطابق یو پی ایس سی کے تحت ایک علحدہ نیشنل وقف سروس قائم کی جائے۔

(18) عالمی معاہدے:
دستور میں مناسب ترمیم کے ذریعہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی اہم عالمی معاہدے کے انعقاد یا ملک کی خارجہ پالیسی میں اساسی تبدیلی کے لیے پارلیمینٹ کی توثیق ضروری ہو۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی آزاداور منصفانہ ہو، استعمار مخالف ہو، جمہوریت اور انسانیت دوستی کے اصولوں پر مبنی ہو،اس پالیسی کے نتیجے میں پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار ہوں، جنوبی خطے میں تعاون South-South Cooperation کی راہ ہموار ہو۔ ہماری خارجہ پالیسی اور دستوری اقدار میں ہم آہنگی پائی جائے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.