صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

مسلم شخص کو جبراً سور کا گوشت کھلانے کے معاملہ میں انسانی حقوق کمیشن کا ایک لاکھ کے معاوضے کا حکم

49,129

گوہاٹی: قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) نے آسام حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ گائے کے نام پر موب لنچنگ کا شکار ہونے والے شوکت علی کو ایک لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا کرے۔ 68 سالہ شوکت علی کو تقریباً ایک سال قبل آسام کے بسوناتھ چریالی قصبے میں ہندو انتہاپسندوں کے مشتعل ہجوم کی طرف سے گائے کا گوشت بیچنے کے شک میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اسے خنزیر (سور) کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا تھا۔

کمیشن نے ان حقائق کو بھی سنجیدگی سے لیا کہ نہ تو چیف سکریٹری نے اس کے شو کاز نوٹس کا جواب دیا اور نہ ہی پولیس کے ڈائریکٹر جنرل نے کیس میں قصوروار پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی رپورٹ پیش کی۔ اب کمیشن نے آسام حکومت کے چیف سکریٹری کو ہدایت کی ہے کہ وہ متاثرہ شوکت علی کو ایک لاکھ روپے کی رقم جاری کرے اور چھ ہفتوں میں کمیشن کو ادائیگی کے ثبوت کے ساتھ ایک رپورٹ پیش کرے۔

کمیشن نے معاملے کو متاثرہ افراد کے انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی قرار دیا۔ اپنے شوکاز نوٹس میں این ایچ آر سی نے کہا "بادی النظر یہ متاثرہ کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے، جس کے سبب ریاست متاثرہ کو معاوضہ ادا کرنے کی پابند ہے۔"

متاثرہ شوکت علی کے ساتھ مارپیٹ کا یہ واقعہ اپریل 2019 میں پیش آیا تھا اور بعد میں اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ ویڈیو میں ایک شخص (شوکت) کو ہجوم کے درمیان کیچڑ میں گھٹنوں کے بل بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ رحم کی بھیک مانگ رہا ہے۔ اسی دوران اسے جبراً گوشت کا ایک ٹکڑا کھلایا جاتا ہے۔

کچھ لوگ مقامی زبان میں شوکت علی سے اس کی شہریت معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ بنگلہ دیشی ہے، کیا اس کا نام کا این آر سی کے قومی رجسٹر میں درج ہو چکا ہے۔ اس معاملہ میں پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی تھی اور پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

واقعے کے بعد شوکت علی کے چھوٹے بھائی عبد الرحمن نے بی بی سی کو بتایا تھا ، "میرے والد اور بھائی (شوکت) گزشتہ 40 سالوں سے بسوناتھ چاریالی کے ہفتہ وار بازار میں ہوٹل چلا رہے ہیں۔ والد کے انتقال کے بعد سے میرے بڑے بھائی شوکت ہوٹل چلاتے ہیں۔ پہلے کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ انہوں نے میرے بھائی کو بری طرح سے پیٹا۔ ان کی حالت بہت نازک ہے۔ وہ بولنے سے قاصر ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، ’’بھائی کی دکان پر اچانک 10-15 افراد گھس آئے اور تلاشی لینے لگے۔ چاول، دال، مرغی اور مچھلی کا ہوٹل ہے، تو گوشت موجود رہےگا ہی! گائے کے گوشت کے شک کی بنیاد پر وہ میرے بھائی کو دکان سے اپنے ساتھ لے گئے۔ ہفتہ وار بازار کے ٹھیکیدار نے بھی بھائی کی مدد نہیں کی۔ انہیں مارکٹ میں سب کے سامنے مارا پیٹا گیا لیکن کوئی بھی ان کو بچانے نہیں آیا۔ بعد میں انہوں نے میرے بھائی کے منہ میں سور کا گوشت ڈال دیا۔"

Leave A Reply

Your email address will not be published.