صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

تبلیغی جماعت کے خلاف دائر مقدمات واپس لینے اور بے وجہ قید کا سامنا کرنے والے افراد کو معاوضہ دینے کا مطالبہ

محمود مدنی نے کہا مذکورہ فیصلہ ایک ایسا صاف شفاف آئینہ ہے جس میں مرکزی و ریاستی حکومتیں اپنا داغدار چہرہ دیکھ سکتی ہیں

74,413


نئی دہلی: جمعیۃعلماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے ممبئی ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ کے ذریعہ تبلیغی جماعت سے متعلق دیے گئے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے ان سرکاروں کے لیے نصیحت آمیز قرار دیا ہے جو ملک کے وسیع تر مفاد کو نظر انداز کرکے فرقہ پرستوں کے ساز پر رقص کرتی ہیں، انھوں نے کہا کہ جسٹس ٹی وی نالا واڈے اور جسٹس ایم جی سیولکر کی بنچ کا فیصلہ ایک ایسا صاف شفاف آئینہ ہے جس میں مرکزی وریاستی حکومتیں اپنا داغدار چہرہ دیکھ سکتی ہیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں جن نکات پر روشنی ڈالی ہے ان سے فرقہ پرستی اور فاشزم کو مایوسی اور شکست ہوئی ہے اور انصاف کے طلب گاروں کو فتح ملی ہے: یہ قابل اطمینان ہے کہ عدالت نے سرکار اور میڈیا کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے  تبلیغی جماعت کے کارکنان پر لگائے گئے سارے الزامات کو خارج کردیاہے اور سرکار سے پوچھا ہے کہ ”کیا ہم نے مہمانوں سے اپنی عظیم روایت اور وراثت کے مطابق سلوک کیا ہے؟ کووِڈ۔19 کی پیدا شدہ صورت حال میں ہمیں اپنے مہمانوں کے تئیں زیادہ حساس اور زیادہ قابل رحم ہو نا چاہیے، لیکن ہم نے ان کی مدد کرنے کے بجائے ان کو جیلوں کے اندر بندکردیا اور ان پر سفری قانون کی خلاف ورزی اور بیماری پھیلانے کا الزام ٹھونک دیا۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ”ویز ا ضوابط کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ ویزا کی حالیہ تجدید شدہ دستی مینویل کے تحت بھی غیر ملکیوں کے لیے مذہبی مقامات کی زیارت اور مذہبی مباحثے میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ یہ غیر ملکی دوسرے مذہب کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا م کرتے ہیں۔عدالت نے میڈیا کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے ان غیر ملکیوں کے خلاف بڑا پروپیگنڈا کھڑا کیا کہ یہی لوگ بھار ت میں کرونا وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں اور اس طرح سے ان کو اذیتیوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں سرکار کے ذریعہ غیر ملکی مہمانوں پر کی گئی زیادتی کا پس منظر سی اے اے ایکٹ کے خلاف مسلمانوں کے مظاہروں کی وجہ سے سرکار کے اندر پیدا شدہ’کینہ‘ کو بتایا ہے۔

عدالت نے مظاہروں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ جنوری سے قبل سے ملک بھر میں دھرنے اور مظاہر ے ہورہے تھے جن میں زیادہ تر مسلمان مظاہرین تھے جو اس قانون کو اپنے خلاف عصبیت پر مبنی تصور کرتے ہیں، یہ کہاجاسکتا ہے کہ سرکار نے تبلیغی کارکنان کے خلاف جو قدم اٹھایا ہے وہ مسلمانو ں کے دل میں خوف پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے، یہ مسلمانوں کو وارننگ تھی کہ ان کے خلاف کسی بھی شکل میں کارروائی کی جاسکتی ہے چاہے وہ سبب کسی بیرونی مسلم سے تعلق رکھنے کا ہی کیو ں نہ ہو۔اس لیے یہ کہاجا سکتا ہے کہ غیر ملکی مہمانو ں کے خلاف کارروائی کرنے میں اس ”کینہ“ کی بو نظر آتی ہے۔ان تمام کوائف کا جائزہ لینے کے بعد عدالت اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ حکومت نے ’سیاسی مجبوری“کے تحت  غیر ملکی مہمانوں کے خلاف کارروائی کی، جسے ’میلائس‘ (کینہ) بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ بہت ہی مناسب وقت ہے کہ سرکار غیر ملکیوں کے خلاف کی گئی اپنی غلطیوں کی اصلاح کرے اور چند مثبت اقدام کے ذریعہ سے نقصانات کی تلافی کرے“
مولانا مدنی نے کہا کہ فیصلے میں عدالت نے ان امور کے ذریعہ نہ صرف سرکار کو جگانے کا کام کیا ہے بلکہ ملک کے وقار، اس کے آئین، اس کی عظمت اور عظیم روایات کے تئیں اس کے غیر ذمہ دار انہ رویے پر اسے خبر دار بھی کیا ہے۔ عدالت نے سرکار کو اپنی خامیوں کی اصلاح کی دعوت دی ہے جو خیر مقدم کے لائق ہے۔ اس کے پس منظر میں جمعیۃ علماء ہند مرکزی و ریاستی سرکاروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ تبلیغی جماعت کے خلاف ملک میں جہاں بھی مقدمہ دائر ہے، وہ بلاتاخیر واپس لیا جائے اور جو لوگ جیلوں میں بند ہیں ان کو رہا کیا جائے۔ بالخصوص اترپردیش کی سرکار کو نصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس کا رویہ انتہائی غلط اور انتقام پر مبنی رہا ہے، آج بھی الہ آباد کے نینی جیل میں تبلیغی جماعت کے ارکان بند ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند ان سب کی رہائی کا مطالبہ کرتی ہے اورجو لوگ طویل عرصے تک قید میں بند رکھے گئے، ا ن کو ذہنی اذیتیں دی گئیں ان کے لیے معقول معاوضہ کا بندوبست کیا جائے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.