صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

دہلی فساد : آگ کِس نے لگائی؟

214,906

عارِف اگاسکر

ملک کی راجدھانی دہلی حالیہ فساد کے بعد خوفزدہ اور سہمی ہوئی ہے۔گذشتہ ڈھائی ماہ سے دہلی کاشاہین باغ شہریت متنازع قانون کی مخالفت کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔اسی دوران گذشتہ ماہ کے اواخرمیں شہریت ترمیمی قانون کے مخالفین اور حامیان کے درمیان شروع ہو نے والے تنازع نے فر قہ وارانہ تشدد کی شکل اختیار کر لی جس میںتقریباً۴۹؍ افراد ہلاک اور سینکڑوں افراد زخمی ہو ئے جبکہ کروڑوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔دہلی کا تشدد فرقہ وارانہ منافرت اور نفرت کی سیاست کا نتیجہ ہے جس نےدہلی کےامن و امان کےساتھ ساتھ دہلی کے مستقبل کو بھی بر باد کر دیا ہے ۔ جبکہ تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے اور نہ ہی تشدد سے کسی مقصد کو پورا کیا جاسکتا ہے بلکہ دونوں سماج میں نفرت کی خلیج میں اضافہ کا سبب بنتا ہے ۔

اسی سماجی منافرت کی سبب دہلی مسلسل تین دنوں تک آگ میں جلتی رہی۔ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاںایک دوسرے کودہلی کے تشدد کے لیے ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آخر یہ آگ کس نے لگائی ؟ اور دہلی مسلسل تین دنوں تک کیوں جلتی رہی؟اس سلسلے میں ممبئی سے شائع ہو نے والے مراٹھی روزنامہ’نو شکتی‘ کے کالم نگار سُکرُت کھانڈیکر یکم مارچ ۲۰۲۰ء کے اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہعالمی سُپر پائور امریکہ کے صدر ڈو نالڈ ٹرمپ جب دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانےوالے ہندوستان کے دورہ پر آئے تھے تب ملک کی راجدھانی د ہلی مسلسل تین دن تک جلتی رہی۔اس دوران وزیراعظم نریندر مودی ٹرمپ کے شاہانہ استقبال میں مصروف تھے اور انھیں ملک کی ترقی اوران کی قیادت میں ملک میں ہوئے ترقیاتی کاموں کی جانکاری دے رہے تھے ۔

اس دوران مودی نے ٹرمپ جوڑے کوہندوستانی ثقافتی ورثہ کا خوشنما نظارہ دکھایا،لیکن اسی وقت شمالی مشرقی دہلی میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔سنگ باری، لاٹھی مار، آنسو گیس،فائرنگ، پٹرول بم اور ایسیڈ بلب کے حملے کیے جا رہے تھے۔چار روز تک فسادی شمالی مشرقی دہلی میں آزادانہ طور پر گھوم رہے تھے۔ان تمام سوالات کا جواب دینے والا کوئی نہیں تھا کہ دہلی میں کس کی حکومت ہے، انتظامیہ کہاں ہے اور پولیس کیا کر رہی ہے؟دہلی کی عوام کا کوئی پُرسان حال نہیں تھا۔ دہلی میںچار دنوں کے دوران سینکڑوں آگ زنی کی وارداتیں ہوئیں،راستوں پر کھڑے کیے گئے ہزاروں گاڑیاں اور دوپہیہ گاڑیاں جلائی گئیں،ہزاروں دُکانوں کو لوٹا گیا، توڑ پھوڑ، لوٹ مار اور آگ زنی کر نے والوں کو کوئی روکتا نہیں تھا ۔

راجدھانی میں لوگوں کے گھروں میں داخل ہو کر انھیں باہر نکال کر ہلاک کر نے کے واقعات رونما ہوئے۔چار دنوں تک دہلی جھلستی رہی تھی،خون ریزی ہو رہی تھی لیکن دہلی والوں کا کوئی پُرسان حال نہیں تھا۔ملک کی راجدھانی میں یہ حالت ہوگی تو مورد الزام کسے ٹھہرایا جائے؟ کانگریس اور بی جے پی میں الزام تراشی کا کھیل شروع ہوا ہے کہ دہلی میں پیدا ہو نے والی بدامنی اور انارکی کے لیے کون ذمہ دار ہے ۔

شمالی مشرقی دہلی میں جعفراباد، گوکل پوری،اشوک نگر،بھجن پورا،گوتم پوری،موج پورا،بدر پور،یمُنا وِ ہار، کھجوری خاص ، سیلم پور ، چاند باغ اور کبیر نگر کے علاقوں میں چار روز تک درندگی جاری رہی اوررات دن آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔فسادکی اصل وجہ دہلی اسمبلی کےانتخابات سے سیاسی لیڈران کے ذریعہ اشتعال انگیز تقاریریں اور ااس سے پیدا ہو نے والی برہمی ہے ۔ مودی حکومت نے اکثیریت کے زور پر شہریت ترمیمی قانون منظور کیا، جس پر صدر جمہوریہ نےدستخط کیے لیکن سی اےاے کی مخالفت میں دہلی کے شاہین باغ میں گزشتہ ڈھائی ماہ سے مظاہرہ  جاری ہے ۔

بنیادی طور پرمسلمانوں کی جانب سے سی اے اے کی مخالفت کی جا رہی ہے ۔ ملک کی ہر ریاست میں مسلمانوں نے بڑے  بڑے مورچہ نکال کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔ جن رِیاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے وہاں پر سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ ایسے پراگندہ ماحول میں اشتعال انگیز سیاسی تقاریر نے جلتی آگ پر تیل کا کام کیا جس کے سبب دہلی میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ دہلی کے فساد میں مہلوکین کی تعداد چالیس سے تجاوز کر چکی ہےاور تقریباً چارسو زخمی ہیںاوردوسو سے زائد گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ملک کی راجدھانی میںنظم و نسق کی ابتری کے لیے مر کزی حکومت پر ذمہ داری عائد ہو تی ہے ۔ کیو نکہ دہلی پولیس وزارتِ داخلہ کے اختیار میں ہے۔دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے آخر دم تک ہندو مسلم ووٹوں کا پولرائزیشن کر نے کی کو شش کی لیکن کیجری وال کی عام آدمی پارٹی کے ۷۰؍ میں سے ۶۲؍ اراکین اسمبلی منتخب ہوئے جودہلی کی عوام کی جانب سے بی جے پی کو یہ زور دار طمانچہ ہے۔ دہلی کے فساد نے دکھادیا ہے کہ عاپ کی حکومت دو بارہ بر سر اقتدار آنے کے باوجود مذہبی منافرت ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔

دہلی کے فساد میں ہندو مسلم سماج کے متعدد بے گناہ مارے گئے ، دونوں سماج کے لوگ زخمی ہوئے ، فساد نے دونوں سماج کا بڑا نقصان کیا ہے۔جو لوگ گذشتہ پچیس تیس بر سوں سے مِل جُل کر امن و چین سے رہ رہے تھے وہ اب ایک دوسرے کے کٹر دشمن بن گئے ہیں۔دونوں سماج کے لوگ ایک دوسرے کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔سب سےتشویش کی بات یہ ہے کہ دونوں سماج کے ہزاروں افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر ہاتھ آیا سازو سامان لے کر اپنے بیوی بچوں اور گھر کے ضعیفوں کو ساتھ لے کر دوسری جگہ رہنے کے لیے چلے گئے ہیں ۔۲۰؍ سال قبل وادیِ کشمیر سےلاکھوں پنڈتوں کو اپنا زیب تن لباس کے ساتھ باہر چلے جا نا پڑا تھا۔ اگرایسا وقت ملک کی راجدھانی میں ہندو اورمسلمانوں پر آرہا ہو گا تو اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو گی؟

بابری مسجد کے انہدام کے بعد ممبئی میںدسمبر ۱۹۹۲ء اور جنوری ۱۹۹۳ء میں بھیانک فسادات بر پا ہوئے تھے ۔ جس میں ایک ہزار سے زائد افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھو نا پڑا تھا۔اس فساد میںممبئی کے دیو نار میں ۴؍ پولیس اہلکاروں کو فسادیوں نے ہلاک کر دیا تھا اور ان کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سیفٹی ٹینک میں پھینک دیے تھے۔ ایسا ہی واقعہ اس بار دہلی میں رو نما ہوا ہے۔ انٹیلجینس بیورو کے ایک ۲۶؍ سالہ افسر انکِت شرما کاقتل ، یہ نہ صرف بدن پر رونگٹے کھڑے کر نے والا بلکہ مشتعل کر نےوالا واقعہ تھا۔فسادی کس حد تک جا سکتے ہیں یہ انکِت شرما اور مزید ایک ہیڈ کانسٹیبل کے قتل سے نظر آیا ہے ۔

فسادیوں نے دیکھاکہ انکت اپنی ڈیوٹی ختم کر کے گھرآیا ہے اسے گھر سے باہر بُلا کر اس کا اغواء کر کے اسے ہلاک کیا گیا، دوسرے دن اس کی لاش نالے میں پھینکی ہوئی ملی۔خاص بات یہ ہے کہ نصف شب تک اپنے بیٹے کےگھر واپس نہ سے پریشان ہو کر اس کی ماں پولیس اسٹیشن کے چکر لگا رہی تھی۔ لیکن دہلی پولیس میں کام کر نے والےاس کے ساتھی اس ماں کو حوصلہ دینے کی بجائے دوسرے پولیس اسٹیشن پر بھجواتے رہے۔پولیس پر حملہ کر نے والے اور ان کا قتل کر نے والے کیسے آزاد رہ سکتے ہیں؟

دہلی اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کے مر کزی ریاستی وزیر انوراگ ٹھاکور نے ۲۷؍جنوری کو ریٹھالا کے انتخابی جلسہ میں دیش کے غداروں کو کانعرہ کی صدا بلند کر تے ہی جلسہ گاہ میں موجود لوگوں نے گولی مارو سالوں کو کے نعرے لگائے۔۲۸؍ جنوری کو بی جے پی کے دہلی کے رکن پارلیمان پرویش ورما نے یہ بیان دیا کہ (شاہین باغ) کے وہ افراد تمھارے گھروں میں داخل ہوں گے اور تمھارے بیٹیوں اور بہوئوں کی عصمت دری کر کے انھیں ہلاک کریں گے۔۲۳؍ فر وری کو بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے جانے تک ہم خاموش رہیں گے ، اس کے بعد اگر(رخنہ پیدا کیے گئے) راستے کو کھولا نہیں گیا تو ہم نہیں سُنیں گے۔ ۲۵؍ فروری کو بی جے پی کے رکن اسمبلی ابھئے ورما نے دہلی فسادات کی آگ بھڑ کنے کے دوران پولیس کےہتیا روں کو گولی مارو سالوں کو کا نعرہ لگایا۔

بی جے پی کے لیڈران کے ذریعہ اشتعال انگیز تقریروں کے کلپ دہلی ہائی کورٹ میں پیش کیے گئے ۔ جنھیں سُن کر جج بھی برہم ہو گئے اور انھوں نے یہ سخت سوال کیا کہ دہلی پولیس نے بر وقت کارروائی کیوں نہیں کی ۔نیز یہ بھی پو چھا کہ اشتعال انگیز تقاریر کر نے والوں پر فرد جرم کیوں عائد نہیں کی گئی۔سُپریم کورٹ نے بھی دہلی پولیس کی ناقص کار کر دگی پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ جس  مُرلی دھر نامی جج نے پولیس کو فرد جرم عائد کر نے کا حکم دیا تھا اس جج کا صرف ۶؍ گھنٹوں میں تبادلہ کردیا گیا ۔ رات میں پو نے بارہ بجے ان کے تبادلہ کا حکم جاری ہوا اور وہ فوراً اپنے عہدے کا چارج سنبھالے ایسادرج کیا گیا۔اس سے حکومت کو کیا پیغام دینا تھا؟کانگریس کی صدر سو نیا گاندھی نے دہلی میں نظم و نسق کی ابتری کے لیے وزیر داخلہ پر ذمہ داری عائد کر تے ہوئے امِت شاہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہےجس پر بی جے پی کی حالت زخم پر نمک چھڑکنے جیسی ہوئی ہے ۔

بی جے پی کے تر جمان نے ۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف فسادات کی یاد دلانا شروع کیا ۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھ مخالف فسادات میںتین ہزار سکھوں کا قتل عام ہواتھا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد ۱۹۹۲ء میں ممبئی میں رونما ہوئے فساد میں سات آٹھ سو افرادکو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔۲۰۰۲ء میں گودھرا کے سابر متی ایکسپریس میں لگائی گئی اس آگ میں رام سیو کوں کی ہلاکت کے بعد گجرات میں ہوئے فساد میں ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔دہلی کے فساد نےاس کی یاد دلائی ہے۔ بی جے پی نے الزام عائد کر تے ہوئے کہا ہے کہ جس دہلی میں گذشتہ دو انتخابات میں کانگریس کا ایک بھی رکن اسمبلی یا رکن پارلیمان منتخب نہیں ہو سکا اس دہلی میں اتنا بڑا فساد بر پا کر نے میں کانگریس ہی ذمہ دار ہے ۔

[email protected]     Mob:9029449982

Leave A Reply

Your email address will not be published.