صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

دہلی میں موت کے فرشتہ کا استعفیٰ!

217,953

عارِف اگاسکر

فلم ساز رامانند ساگرکا تحریر کردہ ناول ’اور انسان مر گیا ‘ ۱۹۴۷ء کے واقعات پر مبنی ہے ۔ مذکورہ ناول ۱۹۴۷ء میں مشرقی اور مغربی پنجاب ، لاہور اور امرتسر کے فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے اس دور کے سماج کی تصویر کشی کرتا ہے جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ تہذیب و تمدن ، محبت و اخوت اور انسانیت کی بنیاد پر بنے ہوئے سارے رشتے انسانی درندگی کی نذرہو گئے ۔ اس دوران ہزاروں افراد کا قتل عام ہوا، بستیاں جلائی گئیں اور موت کا ایسا ننگا ناچ کھیلا گیا کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ۔ اس ناول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے اندر کی انسانیت ختم ہو چکی ہے ۔ بھارت میں جب بھی فرقہ وارانہ فسادات ہو تے ہیں اس کا خمیازہ عام آدمی کو ہی بھگتنا پڑتا ہے ، تباہ وبر باد محنت کش اور مفلس عوام ہی ہو تی ہے ۔ آزادی سے آج تک ملک میں جتنے بھی فسادات ہو ئے ہیں ان میں ایک مخصوص فرقہ کو نشانہ بنایا گیا ہے نیز جانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ ان کی معیشت کو تباہ و بر باد کیا گیا ہے ۔

حالیہ دہلی کا فساد اس کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے اور یہ سب آپسی نفرت اورسیاسی منافرت ہی کا نتیجہ ہے جس کے سبب اس ملک کی ترقی کی راہیں مسدود ہو گئیں ہیں ۔ دہلی فساد کے پس منظر میں ممبئی سے شائع ہو نے والے مراٹھی روزنامہ ’سامنا‘ کے۸؍ مارچ ۲۰۲۰ء کے شمارہ میں سنجئےرائوت اپنے کالم ’روکھ ٹھوک‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’دہلی فساد کی تصویر ہیبتناک ہے ، مذکورہ فساد میں موت کےغیر انسانی رقص کو دیکھ کر فرشتہ اجل نے بھی استعفیٰ دے دیا ۔ اس فساد میں ہند واور مسلمانوں کے معصوم بچے بے سہاراہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ہم یتیموں کی ایک نئی دُنیا پیدا کر رہے ہیں ۔ مدثر خان کے بچے کی تصویر دُنیا بھر میں مشہورہوئی جس نےکلیجہ کو چیر کر رکھ دیا ہے ۔ سنجئے رائت مزید لکھتے ہیں کہ ؎        کہیں مندروں میں دِیا نہیں/کہیں مسجدوں میں دُعا نہیں/ میرے شہر میں ہیں خُدا بہت /مگر آدمی کا پتہ نہیں

دہلی میں ایک بار پھریہ حقیقت نظر آئی ہے ۔ فرقہ وارانہ اورمذہبی فسادات رونما ہوتے ہیں تب بہت سارے واقعات کے ذریعہ انسانیت کا اظہار کیا جاتا ہے جس کے لیے ’بھائی چارہ‘ جیسا گھِساپٹا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ لیکن انسانیت سے ندارد سیاست اور اس سیاست سے پیدا ہو نے والا بے رحم مذہبی جنون ، اور اس مذہبی جنون سے جنم لینے والی نئی قوم پرستی ملک کے بچے کھچے انسان کو ہلاک کر رہی ہے ۔ دہلی کے فساد میں ۵۰؍افراد مارے گئے (صحیح اعداد و شمار ۱۰۰؍ سے زائد ہوگی)۵۰۰؍ سے زائد لوگ زخمی ہوئےہیں ، سینکڑوں لوگوں کا سنسار اور روزی روٹی کے ذرائع جل کر راکھ ہو گئے اور اس راکھ میں کھڑے ہوکر بے سہارا چھوٹے بچے اپنے ماضی اورمستقبل کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔ اگریہ تصویر سیاست دانوں کودکھ نہیں پہنچاتی ہوگی تو انھیں چاہیئے کہ وہ خود کو موت کے فرشتہ کا وارث کہلانے کا اعلان کریں ۔ دہلی میں خونریزی اور موت کا ننگا ناچ دیکھ کرموت کے فرشتہ نے بھی بے چین ہوکر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔ یہ ملک کی خوفناک تصویر ہے ۔

فسادات ، قحط اورسیلاب میں کتنے افراد مارے گئے اس کے اعداد و شمار سامنے آتے ہیں ، لیکن ان حادثات میں جو بچے یتیم اور بے سہارا ہوئے ہیں ان کی تعداد بھی سامنے آنا ضروری ہے ۔ دہلی کے فساد کے بعد ایک معصوم بچے کی تصویردنیا بھر میں مشہور ہوئی ہے ۔ اس تصویر میں وہ بچہ اپنے والد کے جسد خاکی کے قریب کھڑا رہ کر اپنے شدید غم وغصہ کا اظہار کر رہا ہے ۔ اس تصویر کو دیکھنے کے باوجود کوئی ہندو یا مسلمان ایسا ہی کھیل کھیلتا ہوگا تو وہ بطور انسان زندہ رہنے کے لائق نہیں ہے ۔ ’شاہین باغ‘ کے حدود میں ہو نے والا مظاہرہ بحث کا موضوع ہو سکتا ہے ۔ وہاں پر کس نے اشتعال انگیزتقاریر کیں ، کس نے آگ لگائی ، وہ تمام لوگ کون تھے جنھوں نے پچاس سے زائد لوگوں کی جان لی ؟ ایسے سوالات کئی معصوم بچوں اور ان کی مائووں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو بیان کر رہے ہیں ۔ انکت شر ما کی ماں، راہل سولنکی کے والد اور مدثر خان کے معصوم بچے کی آنکھوں میں نہ رکنے والے آنسو بھی یہی سوالات کر رہے ہیں ۔ جیسےخون کا کوئی مذہبی رنگ نہیں ہوتا اسی طرح آنسوئوں کا بھی کوئی رنگ نہیں ہو تا ۔

آج بھی مجھےاس معصوم بچے کی تصویر بے چین کر رہی ہے ۔ وہ بچہ کون ہے ؟ دہلی کے مصطفیٰ آباد کا مدثر خان اب اس دُنیا کو چھوڑ کر جاچکا ہے اس کی لاش کے گھر پہنچنے پر علاقہ میں صف ماتم بچھ گئی ۔ اس کے جنازہ کی کیمرے نے جو عکس بندی کی اسے دیکھ کر سینکڑوں سوالات بچھو کے ڈنک کے مانند چبھنے لگے جو ہر زندہ انسان کے دل کو دہلا دینے والی تصویر تھی ۔ یہاں پر زندہ رہنے کا مطلب کیا ہے ؟ صرف پلکوں کا جھپکنا ، سانس کا جاری رہنا اور ہونٹوں کی حرکت ہو نا ہی زند گی کی علامت نہیں ہے ۔ بلکہ دل میں انسانیت کی شمع کو جلائے رکھنے کا مطلب ہی زندگی ہے ۔ ان دنوں یہ انسانیت بھی ختم ہو گئی ہے ۔ ایک آٹھ دس سال کا بچہ اپنے والد کوساکت پڑا دیکھ کر رو رہا تھا ۔ اسے اس کے والد کا ساتھ جس عمر میں ضروری تھا اسی عمر میں والد نے اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا ۔ سیاست دانوں نے جس نفرت کے زہرکو پھیلایا ، اسی نے اس کے سر سے والد کا سایہ دور کر دیا ۔ مدثر خان کے اس معصوم بچے کے آنسو اور غم و غصہ نے دہلی کے فساد کی صحیح تصویر دُنیا کے سامنے لائی ہے ۔

ہندوتو ، سیکو لرزم ، ہندو۔ مسلمان ، عیسائی ۔ مسلمان تنازع کے سبب یہ دنیا تباہی کے دہانے پرپہنچ گئی ہے ۔ مذہبی جنون میں قتل وغارت گری کے ذریعہ لوگ مارے جا رہے ہیں ۔ دیو اور دھرم کے نام پر ’’بچائو! بچائو‘‘ کا آکروش کیا جارہا ہے لیکن مدد کے لیے نہ ایشور آتا ہے اور نہ مسیح دوڑے آتے ہیں ۔ انسان کوخود سےحوصلہ پاکر ہی زندگی جینا ہے ۔ ایسے مصیبت کے وقت میں ’سرکار‘ نام کا مائی باپ بھی تمام راستوں کومسدود کر دیتے ہیں اور دروازے کھڑکیاں بند کر کے بیٹھ جا تے ہیں ۔ فساد تھمنے کے بعد یہ اعداد و شمار باہر آرہے ہیں کہ کتنے ہندو اور کتنے مسلمان مارے گئےہیں ؟ ۔ مدثر خان کے بچے کی تصویر جس طرح رُلا رہی ہے ایسی ہی ایک اور تصویر مشہور ہوئی ہے ۔ ایک طالب علم اپنے جلے ہوئے گھر کی راکھ سے اسکول کی جلی ہوئی کتابیں باہر نکال رہا ہے ، یہ کتابیں اردو کی نہیں بلکہ ہندی کی ہیں ۔ اس راکھ میں بھی ہندو مسلمان تلاش مت کرو ، اس کے باوجود یہ تلاش جاری ہے ۔ یعنی یہ راکھ سیاست دانوں کی روزی روٹی کا ذریعہ بن گئی ہے ۔

تھامس الوا ایڈیسن مذہب کو نہیں مانتا تھا ۔ اس کی ڈکشنری میں اللہ ، ایشوراورگاڈ نام کے الفاظ نہیں تھے ۔ دنیا میں کئی مذاہب ہیں ، اتنی ہی عقیدت اور اندھے عقیدےبھی ہیں ۔ جس پر عمل پیرا ہونے والوں کے گھروں کو ایڈیسن نے روشنی سے جگمگایا اوران کے گھروں اور زندگی سے اندھیرے کو دور کیا ۔ اسی لیے دُنیا آج ایشور ، خُدا اور گاڈ کی طاقت سے زیادہ ’الیکٹری سٹی‘ پراعتماد رکھتی ہے ۔ لیکن ہم ملک کی دارُالحکومت میں ’ہندو۔ مسلمان‘ کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ مذہب انسان کو غذا فراہم نہیں کرتا اسےمحنت سے حاصل کرنا پڑتا ہے ۔ چین ایک سُپر پاور ہے جہاں ’کرونا‘ وائرس نے افرا تفری مچارکھی ہے جس کے سبب آج چین خوف و ہراس میں مبتلاء ہے ۔ ان کی عقیدت اور خُدا بھی انھیں بچا نہیں سکتا ۔ دُنیا میں متعدد مہلک امراض پائے جا تے ہیں جس میں مبتلاء تمام لوگ اللہ ، ایشور اور گاڈ کی مالا جپتے ہیں ۔ لیکن آخر انھیں فلیمنگ کے ذریعہ ایجاد کی گئی ’اینٹی بائیو ٹک‘ دوائیں لے کر ہی صحت یاب ہونا پڑتا ہے لیکن ہم مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا قتل کرتے ہیں ۔ مدثر خان کو اللہ نے نہیں بچایا نہ ہی انکت شرما کو ایشور نے بچایا ۔

مندر، مسجد اور چرچ کے نشہ سے باہر نکلو اور اسکول، کالج کی سمت آگے بڑھو یہ کہنےوالا پیغمبر یہاں پر پیدا ہی نہیں ہوا ۔ جس طرح دہلی کے فساد نے بچوں کو یتیم کیا ہے ایسے ہی مہاراشٹر میں بے موسم بارش اور قرض کے بوجھ سے ’والدین‘ خود کشی کرتے ہیں اور بچے یتیم ہو جاتے ہیں ۔ مدثر خان فساد میں مارا گیا اسی طرح پاتھرڈی کے پر شانت بٹولے نامی تیسرے درجہ میں زیر تعلیم طالب علم نے اپنے والد کو کھو دیا ہے ۔ کاشتکاری کا دُکھ اور قرض کا بوجھ ناقابل برداشت ہونے کی وجہ سے ملہاری بابا صاحب بٹولے نے جب اپنی زندگی ختم کی تھی اس سے دو گھنٹے قبل ان کے بیٹے پر شانت نے اسکول میں ایک نظم سُنائی تھی ’’ارے بلی راجہ ، نَکو کرو آتم ہتیا‘‘ ! جس والد کے لیے اس نے یہ نظم سنائی تھی اسی والد نے دوگھنٹوں بعدخودکشی کر لی ۔

مدثرخان اورپاتھرڈی کے ملہاری بابا صاحب بٹولے یہ دونوں ہی مقتول ہیں ۔ ان کے قتل سےان کے معصوم بچوں کے مستقبل کا بھی قتل ہو گیا ۔ دونوں کوہی یتیم ہونے سے سرکار بچا نہیں سکی ۔ دُنیا میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے ، ہم ہی یتیموں کی نئی دُنیا پیدا کر رہے ہیں ۔ جنگی بُخار میں مبتلاء شام ، عراق اور افغانستان جیسے کئی ممالک میں بموں کے حملے اب بھی جاری ہیں ۔ بموں کے ان حملوں میں معصوم بچے بے سہارا ہورہے ہیں ایسے بے سہارا بچوں کی تصویریں دیکھ کر ہم سہم جاتے ہیں ۔ یہ تو دور کی بات ہے ، لیکن ہماری دہلیز پر مدثر خان اور ملہاری بابا صاحب کا بیٹا یتیم ہوا ہے اس کا غم کون منائے گا ؟

[email protected] : Mob. 9029449982

Leave A Reply

Your email address will not be published.