صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

چوکیدار اور چالیس اراکین اسمبلی

1,288

عارِف اگاسکر

’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ان دنوں انتہائی مشکل دور سے گزر رہی ہے ۔ یہاں پر ایسے لیڈران کا فقدان ہےجو اس ملک کے عوام کے بنیادی مسائل کو حل کر نے میں دلچسپی رکھتے ہوں ۔ برسوں سے عوام کو جھوٹے وعدوں اور خوش آئند خواب دکھا کر بے وقوف بنا یا جا رہا ہے ۔ عوام ہے کہ اپنے مسائل سے جوجھ رہی ہے ۔ تعلیم ، روزگار اور پسماندہ طبقات کو نچلی سطح سے اوپر اٹھانے جیسے موضوعات کو پسِ پُشت ڈال دیا گیا ہے ۔ انتخابات آتے ہیں اور چلے جا تے ہیں لیکن جھوٹے وعدوں کے سوا عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ۔ جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی ، لال بہادر شاستری جیسے اعلیٰ پایہ کے لیڈران وزارتِ عظمیٰ کے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں جنھوں نے اس عہدے کو ایک وقار بخشا تھا لیکن آج ایسا نہیں ہے ۔ وزارت عظمیٰ کے عہدے کو بھی اب شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ عہدےپر فائز رہتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی جس طریقہ سے بیان بازی کررہے ہیں اس سے ملک کا باشعور اور سنجیدہ طبقہ متفکر ہوگیا ہے ۔ وہ یہ محسوس کر تے ہیں کہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کا وقار دائو پر لگ چکا ہے ۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے مغربی بنگال کے ۴۰؍ اراکین اسمبلی کے رابطہ میں ہو نے کےتعلق سے بیان دے کر سیاسی گلیاروں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔ اسی سلسلے میں مراٹھی روزنامہ ’لوک ستّہ‘ نے یکم مئی کو اپنے ادارتی کالم میں جو تحریر کیا ہے اسے ہم قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کر رہے ہیں‘‘

اہم عہدوں پر فائز افراد اپنے عہدوں کا احترام کریں ایسی توقع کی جاتی ہے لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے ایسے عہدوں پر فائز افراد اس پر عمل کر تے ہوئےنظر نہیں آتے ۔ اس ملک میں اپوزیشن کے ذریعہ عائد کیے گئے الزامات پر حکومت کے وزراء کے ذریعہ جواب دہی کی روایت رہی تھی ۔ لیکن رافیل طیارہ کی خریداری کے تنازع میں اپوزیشن کے ذریعے اٹھائے گئے مدعوں پر فضائیہ کے سربراہ کے ساتھ ساتھ فوجی سربراہ کے ذریعہ اپوزیشن کے الزامات کا جواب دینے ، روزگار کی کمی کا جواز یا پھر کانگریس پارٹی کے ذریعہ اپنے انتخابی منشور میں کی گئی یقین دہانی پر پالیسی کمیشن کے نائب صدر کے ذریعہ اپنے ردعمل کا اظہار کر نے اورانتخابی عمل کے دوران صرف اپوزیشن لیڈران یا اپوزیشن سے تعلقات رکھنے والوں پر انکم ٹیکس محکمہء کے ذریعے چھاپہ ماری کر نے جیسی تمام مثالوں کے ذریعے یہ الزام عائد کیا جا تا ہے کہ تمام سرکاری اداروں کو سرکار یا مودی سر کار اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کررہی ہے ۔

یہ الزام بھی عائد کیا جا تا ہے کہ و زیر اعظم نریندر مودی کی انتخابی مہم میں دیے گئے بیانات کے تعلق سے کی گئی شکایت پر الیکشن کمیشن کی طرف سےکوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔ کسی بھی سیاسی لیڈر کے ذریعہ اس توقع کا اظہار کر نے میں کوئی غلطی نہیں ہے کہ ان کی پارٹی کو زائد سیٹیں حاصل ہوں ، صرف انتخابی مہم کے لیے وزیراعظم مودی کے ذریعہ یہ دعویٰ کر نا کہ تر نمل کانگریس کے ۴۰؍ اراکین اسمبلی میرے رابطہ میں ہیں اور ۲۳؍ مئی کو لوک سبھا کے نتائج کے بعد یہ اراکین اسمبلی پارٹی تبدیل کر کے بی جے پی کے قریب آئیں گے ۔ کیا وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ کر اس قسم کی بیان بازی کرنا وزیراعظم کے عہدے کے شایان شان ہے ؟ ان کا یہ بیان اس سلسلے میں ایک نیا تنازع پیدا کر نے کا سبب نہیں ہے؟ اپنےانتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی اپنے جلسوں میں حاضرین سے کہتے ہیں کہ ’میَں چوکیدارہوں‘ ۔ اور ان سے ہامی بھر واتے ہیں ۔ لیکن یہی مودی مفاد پرست اور سیاسی غیر اخلاقی اراکین اسمبلی کےذریعہ پارٹی تبدیل کرنے پر فخریہ عوامی جلسوں میں داد تحسین دیتے ہیں تو اس پر تنقید ہو نا لازمی ہے ۔

بی جے پی کا عند یہ ہے کہ کسی بھی طرح ممتا بنرجی کی ترنمُل کانگریس کے اقتدار والے مغربی بنگال میں بی جے پی کی بنیاد رکھی جائے ۔ لیکن اصل مدعا یہ ہے کہ ایک ریاست کے اراکین اسمبلی کے ذریعہ پارٹی تبدیل کر نے کے معاملہ کی وزیراعظم کے ذریعے حوصلہ افزائی کرنا کہاں تک جائز ہے ۔ ترنمُل کانگریس نے وزیراعظم پر الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعظم ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ، اسی لیے ترنمُل کانگریس نریندر مودی کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع ہوئی ہے ۔ جب وزیراعظم یہ دعویٰ کر تے کہ اراکین پارلمینٹ پارٹی تبدیل کریں گے تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے ۔ لیکن ایک ریاست کے اراکین اسمبلی میرے رابطہ میں ہیں اور وہ جلد ہی اپنی پارٹی چھوڑ دیں گے ، تو سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اس معاملہ میں وزیراعظم توجہ کیوں دے رہے ہیں ؟ جبکہ پارٹی کے صدر یا پارٹی کے دیگر لیڈران کو اس طرح کے دعویٰ کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا ۔ مغربی بنگال کے ۲۴؍ انتخابی حلقوں میں آئندہ تین مر حلوں میں ووٹنگ ہو نے والی ہے شاید اسی لیے تر نمُل کانگریس کے خلاف رائے دہند گان تک پیغام پہنچانے کے لیے مودی نے یہ آواز اٹھائی ہے کہ اراکین اسمبلی پارٹی چھوڑ دیں گے ۔

اسے لمحہ بھر کو مان بھی لیا جائے تو بھی۲۹۴؍ اراکین اسمبلی والی مغربی بنگال اسمبلی میں ممتا دیدی کی پارٹی کے ۲۰۰؍ سے زائد اراکین ہیں ۔ ان میں سے ۴۰؍ اراکین اسمبلی کے ذریعہ پارٹی سے بغاوت کر نے پر بھی تر نمُل سرکار کے استحکام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، اس کے باوجود مودی نے یہ دعویٰ کیا ہے ! بی جے پی کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ شمالی ہندستان میں پچھلی بار کی طرح سیٹیں حاصل کر نا مشکل ہے ۔ اس لیے بی جے پی کی قیادت نے مغربی بنگال پر اپنی توجہ مر کوز کی ہے ۔ اسی وجہ سے مودی نے سیدھے طور پر ممتا بنرجی کو اپنا ہدف بنایا ہے ۔ حال ہی میں فلمی اداکار اکشئے کمار کو دیے گئے انٹر ویو میں مودی نے یہ کہا ہے کہ ممتا بنرجی ہر سال انھیں بنگالی کُرتا اور مٹھائی بھیجتی ہیں یہ احساس دلانے کی کو شش کی ہے کہ ممتا بنرجی دیگر مخالفین سے جدا ہیں ۔ مودی کےبیان کے بعداراکین اسمبلی کےتوڑ جوڑ کی شروعات ہونے پر اس تنقید کو تقویت ملے گی کہ چوکیدار ہی ہارس ٹریڈنگ کر رہا ہے ۔

[email protected]  Mob.9029449982

Leave A Reply

Your email address will not be published.