صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

ٹی وی ڈرامے کی آڑ میں خلیجی عوام کے ضمیر پر نقب لگانے کی کوشش

243,800

کویت : کویت کا شمار خلیجی عرب ممالک کی اس فہرست میں ہوتا ہے جس نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کی۔ کویتی حکومت اور ریاست کے اہم عہدیدار، کویتی عوام اور حکومت سب کا فلسطینی قوم کی حمایت میں موقف قابل تحسین رہا ہے۔ کویتی پارلیمنٹ (مجلس امہ) کے اسپیکرمرزوق الغانم اس کی زندہ مثال ہے جنہوں نے ہر فورم پر فلسطینی قوم پراسرائیلی ریاست کےظلم اور جبر کی مخالفت اور فلسطینی قوم کےحقوق کے لیے آواز بلند کی۔مگر اس وقت خلیجی ممالک ایک ایسی مہم شروع کیے ہوئے ہیں۔  یہ مہم ام ہارون نامی ایک ڈرامہ سیریز ہے۔ یہ ڈرامہ سریز سعودی عرب کے ملکیتی ایم بی سی ٹی وی چینل پر ماہ صیام میں نشر کیا جائے گا۔ یہ محض ایک ڈرامہ ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے اسرائیل اور صہیونیوں سے دوستی کے خواہاں عناصر کی ایک گہری چال اور سازش ہے جو اپنے مذموم سیاسی مفادات اورمقاصد کے لیے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام اور راہ و رسم بڑھانے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔

اس ڈرامے میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان تاریخی تعلقات کو بیان کر کے دراصل خلیجی ملکوں کے عوام کی اسرائیل کے ساتھ دوستی کے لیے ذہن سازی کی کوشش کی جا رہی ہے۔فلسطینی مورخ اور ڈرامہ نگار اسامہ الاشقر نے خلیجی ممالک کے اسرائیل نوازوں کی اس سازش پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل خلیجی عرب ممالک کی حکومتیں صہیونی ریاست کے لیے نہ صرف نرم گوشہ رکھتی تھیں اور ان کے اسرائیل سے دوستی کے حربوں پرعوامی حلقوں کی طرف سے تنقید کی جاتی رہی ہے مگر اب ان ممالک نے عوام الناس کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی مذموم کوششیں کی ہیں۔ اس طرح کے ڈراموں کا مقصد عرب ممالک کی عوام کو بھی اسرائیل کے ساتھ دوستی کے بیج بونا ہے۔

قدس پریس سے بات کرتے ہوئے الاشقر نے کہا کہ خلیجی عرب ممالک کا یہ منصوبہ نیا نہیں اور اس کے پس پردہ سیاسی مقاصد بھی کسی سے مخفی نہیں۔ یہ منصوبہ کئی سال قبل تیار کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بڑے منصوبےاچانک نہیں بنائے جاتے بلکہ ان کی تیاری میں برسوں کا عرصہ لگتا ہے۔ اس لیے ہم اسے کرونا وائرس کی طرح اچانک کسی واقعے کے وقوع پذیر ہونے کا نتیجہ نہیں قرار دے سکتے۔انہوں نے مزید کہا کہ عرب ممالک میں اسرائیل کے ساتھ دوستی کی باتیں نئی نہیں بلکہ ماضی میں بھی خلیجی عرب ممالک کی طرف سے اس طرح کے حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔الاشقر کا کہنا تھا کہ خلیجی عرب ممالک میں ڈرامائی ایکشن کویتی پالیسی کا عکاس نہیں۔ کویت کی پالیسی واضح رہی ہے۔

کویت کو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کے جوہڑ میں ڈبونے کی کوششیں مزید شدت اختیار کر رہی ہیں۔ اس وقت خلیجی ممالک میں کویتی ڈرامے کو غیر معمول پذیرائی حاصل ہے۔ اس اہمیت کو بعض دوسرے خلیجی ممالک اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کے لیے کیش کرانا چاہتے ہیں۔یہ پہلا موقع ہے جب کویت کی بعض فلمی شخصیات نے ایک ایسے ڈرامے میں حصہ لیا ہے جس میں اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام اور تعلقات کو نارملائیز کرنے کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک کے عوام کے دل ودماغ میں اسرائیل کے معاملے میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اسامہ الاشقر نے مزید کہا کہ خلیجی ممالک کے نوجوان اس وقت دو گروپوں میں تقسیم ہیں۔ ایک انتہائی قلیل گروپ ایسا ہے جو اس وقت اسرائیل کے ساتھ دوستانہ مہمات کا حصہ بن سکتا ہے۔ مگرعرب ملکوں کے عوام کی اکثریت اب بھی فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے وجود کو غیرقانونی اور غیرآئینی سمجھتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ام ہارون ڈرامے کے خلاف تعلیمی، کھیلوں،ثقافتی اور شوبز کی شخصیات کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں سیاسی جماعتوں کو بھی اسرائیل نوازی کی مہم پرمبنی اس ڈرامے کے خلاف متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اسامہ الاشقر کا کہنا ہے کہ ام ہارون نامی ڈرامے جیسی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کئی دوسرے طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ سیاسی، سیکیورٹی، سماجی اور اقتصادی بحرانوں کے عرصے میں تیار ہونے والے ڈراموں کو کسی خاص علاقائی تنازع کے پس منظر میں نہیں چلانا چاہیے۔مگر اس نوعیت کے فنی اور ثقافتی پہلوپر سرمایہ کاری کبھی بھی فلسطینیوں کی ترجیح نہیں رہی ہے۔ فلسطین کلچر سینٹر اور حق واپسی مرکز کے ڈائریکٹر سمیر عطیہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی ڈرامہ موجود تو ہے مگر اسے پیشہ وارانہ پہلو سے عالمی معیار کے مطابق لانے کے لیے مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.