اردو کارواں ممبئی کے زیر اہتمام فراق گورکھپوری کو انکے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا گیا

ممبئی : اردو و ہندی ادب کے مایہ ناز غزل گو شاعر فراق گورکھپوری کی تاریخ پیدایش کے موقع پر اردو کارواں ممبئی نے مشہور و معروف شاعر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے معروف شاعر و صحافی شمیم طارق ، قیصر خالد آئی پی ایس ، آئی جی ممبئی اور آنند کمار ، کے لکچر کے ذریعے بیش قیمت معلومات بہم پہنچائی ۔

معروف نقاد و شاعر شمیم طارق نے فراق کے فکر و فن کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ فراق کی انفرادیت کو تمام اہم نقادوں نے قبول کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ فراق اب بھی تشنہ جواب ہے وہ کو نسے محاسن ہیں جو انھیں دوسرے شاعروں سے ممتاز کرتے ہیں حسن اور عشق دونوں کو عظمت انسان کے اعتراف کا حاصل ہونا یہ شعر ثابت کرتا ہے ؎ حاصل حسن بس یہی ہے/آدمی آدمی کو پہچانے ۔

فراق  کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے شاعری یا غزل کی لفظیات کا دائرہ وسیع کیا ہے اور اس میں ہندوستان کی روح  بھر دی ہے ۔ فراق نے اپنے عہد کی روایت کو میر کے عہد کی روایت سے ملانے کی کوشش کی ہے اور کہیں کہیں کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔ فراق کی نظم اور رباعی بھی گفتگو کی متقاضی ہے ۔ مگر انکی غزلیں  زیادہ توجہ مرکوز کراتی ہیں ۔

قیصر خالد نے اپنی بات مقالے کے ذریعے پیش کی ، جس میں فراق کی غزلوں نظموں اور رباعی کا حوالہ ان کے اشعار کے ذریعے دیا گیا ۔ انہوں نے فراق کی شاعری کو فطری شاعری کہا اور بتایا کہ انکے یہاں صرف واردات عشق ہی نہیں بلکہ زندگی کی تلخیاں اور سچائیاں بھی موجود ہیں وہ اپنے اشعار کے ذریعے زندگی کی سچائیوں کو روشناس کراتے نظر آتے ہیں ۔

فرید خان صدر اردو کارواں نے کہا کہ فراق گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے ۔ وہ گنگا جمنی تہذیب جو ہمارے ملک ہندوستان کی پہچان ہے ۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اسی تہذیب کی آبیاری کی ۔ ہندی اور اردو زبان پر بیک وقت عبور حاصل ہونے کے سبب انھوں نے نہ صرف دونوں زبانوں کی نزاکت کو سمجھا بلکہ دونوں زبان کی نزاکت و لطافت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی شاعری میں سمویا ۔ آج کے ہندوستان میں اسی تہذیب کی اسی میل جول کی سخت ضرورت اور وقت کا تقاضہ ہے ۔ اس موقع پر موسیقار خیام اور اردو کے ممتاز ادیب و صحافی نند کشور وکرم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔

آنند کمار نے فراق کو صدی کا شاعر کہا اور مشرقی روایت کا علمبردار بتایا ۔ پروفیسر شبانہ خان نے فراق کے تعلق سے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ فراق کی شاعری ذاتی تجربات و مشاہدات کا نتیجہ ہے ۔ انکی شاعری کی بنیاد سچ پر ہے اور یہ سچ چاہے انکی ذات کا ہو یا بین الاقوامی وہ سچ سے انحراف کرتے نظر نہیں آتے ۔

فراق بیک وقت شاعر اور نقاد تھے انھوں نے شاعر کے تنقیدی پہلو پر بھی اظہار خیال کیا فانی ، جگر اور یگانہ کی موجودگی میں خود کو منوا لینا یہ فراق کا ہی خاصہ تھا ۔ فراق کی نظموں میں یوروپی ادب اور کلچر کا بھی ذکر کیا ۔

گلوکارہ انوشکا نکم نے فراق کی غزل کسی کا یوں تو کون ہوا ہے کبھی ، اپنی خوبصورت آواز میں پیش کر کے مسحور کر دیا ۔

محفل فراق میں  اراکین اردو کارواں شعیب ابجی ، وقار سر ، ظفر سر ، اشتیاق سر ، شیخ عبداللہ ، پروفیسر جمیل کامل ، نعیمہ امتیاز ، لتا جی ، حمیدہ آپا ، تبسم ناڈکر ، مقبول سر ، محمود نواز تھانہ والا اور اسکے علاوہ ان طلباء و طالبات کی بڑی تعداد موجود تھی جو شاعر و افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھ رہے ہیں ۔ مذکورہ پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ ہر عمر ہر طبقے کی شہر کی علمی و ادبی شخصیات موجود تھیں ۔ نظامت کے فرائض محسن ساحل نے انجام دیے اور رسم شکریہ شعیب ابجی نے ادا کیا ۔

Comments (0)
Add Comment