ہندوستان کی تاریخ میں بابری مسجد کی شہادت سب سے بڑی دہشت گردی ہے: وحدت اسلامی ہند

ممبئی : بابری مسجد  شہادت کی ٢٩ویں برسی کے موقعے سے وحدت اسلامی ممبئی کی جانب سے  منعقدہ "بابری مسجد سیمینار” میں شہر کے ممتاز علماء کرام و دانشورانِ ملت نے خطاب فرمایا، جس میں میڈیا نمائندوں کے علاوہ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

      مراٹھی پترکار سنگھ میں منعقدہ اس  سیمینار کا آغاز مولانا زاہد عمری کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ نظامت کے فرائض رضوان صدیقی نے انجام دیے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں سیمینار کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ آج سے تقریباً ٣٠ سال قبل توحید کے مرکز بابری مسجد کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا اور مسلمان اس واقعہ کو بھول نہیں سکتے۔

       ” بابری مسجد کی شرعی حیثیت” اس موضوع پر حضرت مفتی عبدالاحد فلاحی قاضئ شریعت: محکمہء شرعیہ ممبئی نے خطاب فرمایا۔ آپ نے بابری مسجد کی شرعی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجد کے بغیر اسلامی تہذیب کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ ﷺ نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے  جس چیز کی فکر کی وہ مسجد تھی اور آپ ﷺ نے وہ جگہ بنا قیمت لینا گوارا نہیں کیا۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی کی جگہ پر قبضہ کر کے مسجد نہیں بنائی جا سکتی۔

بابری مسجد کی تاریخ کے بارے میں عدالت نے تسلیم کیا کہ کسی کی جگہ چھین کر نہیں بنائی گئی۔ ١٥٢٨ سے وہاں مسجد رہی اور مستقل نماز ہوتی رہی، یہاں اماموں کے ناموں کا سلسلہ ١٩٤٩ تک ملتا ہے۔ مزید فرمایا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حقائق پر مبنی نہیں بلکہ عقیدت پر ہے۔ جن کی تاریخ افسانوں اور کہانیوں پر مبنی ہے۔

وہ زمین کل بھی مسجد تھی ، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی۔ اور یہ بات نعروں سے نہیں ہوگی بلکہ ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اس کام کے لئے قربانی دینی ہوگی۔ بابری مسجد کو شہید کیا جانا دراصل انصاف کا خون کیا جانا ہے۔ مساجد صرف نماز کے لئے نہیں بلکہ اسلام کی تبلیغ واشاعت کا مقام ہے اور نوجوانوں کی اصلاح و تربیت کا بھی ۔

        بعد ازاں "بابری مسجد فیصلہ۔ ایک نظر میں” عنوان پر ایڈوکیٹ عبدالواحد شیخ، مصنف بےگناہ قیدی و سوشل ایکٹوسٹ نے سپریم کورٹ کے ذریعے دئیے گئے فیصلے کے عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ ٢٠١٩ میں  نریندر مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بنائے جانے کے ٦ ماہ کے اندر ہی بابری مسجد کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہائی کورٹ نے ایک حصہ مسجد کو دیا جبکہ سپریم کورٹ نے پوری زمین ہی مندر کے لئے دے دی یعنی سو فیصد فیصلہ مسلمانوں کے خلاف  دیا ۔

ہائی کورٹ کے فیصلے سے ہم مطمئن نہ تھے اور سپریم کورٹ سے پرامید تھے، مگر جب سپریم کورٹ نے غلط فیصلہ دیا تو ہمیں ریویو میں جانا پڑا ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جو جنسی ہراسانی کے ملزم رہے ہیں، بعض کا کہنا ہے کہ ان پر دباؤ بنایا گیا اور جب وہی جج فیصلہ سناتے ہیں تو ١٣٠  دن کے اندر اندر انہیں ممبر آف پارلیمنٹ بنا دیا جاتاہے۔

سپریم کورٹ ججمنٹ کے پیراگراف ٧٨٨ اور ٧٩٦ کے حوالے سے عبد الواحد نے بتایا کہ حق ملکیت آستھا یا عقیدے کی بنیاد پر درست نہیں ہے بلکہ ثبوتوں کی بنیاد پر ہونا  چاہئے، سننے کے لئے یہ اچھا ہے مگر فیصلہ آستھا کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ پیراگراف ٧٨٧ میں درج ہے کہ آرکیو لوجیکل سروے کے مطابق کھدائی کے دوران مندر کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

 ١٥٢٨ میں مسجد کی تعمیر ہوئی اس کو سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے۔ پراگراف ١٢ میں درج ہے کہ ١٩٤٩ میں چند لوگوں نے رات کے وقت گھس کر مورتی رکھی گئی۔ اسٹیٹس کو کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا جرم ہے، کورٹ نے یہ بھی مانا کہ مسلمانوں نے مسجد سے خود دستبرداری نہیں کی ۔  جو کیا گیا۔   نیز ججمنٹ کے پیراگراف ٨٠١ میں ذکر معاوضے کے حوالے سے کہا کہ مسلمان  مسجد کے نام پر سودے بازی کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں اگر ہمیں سودے بازی کرنی ہوتی تو عدالت کے باہر کئی مواقع تھے۔

      

صادق قریشی جو MURL (Movement Against UAPA and other Repressive Laws )  کے نیشنل کو آرڈینیٹر ہے نے اپنے خطاب "بابری مسجد کے ساتھ ناانصافی” مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں بابری مسجد کی تحریک کا حصہ رہا ہوں۔ دستور نے جو ہمیں مذہبی آزادی دی تھی، بابری مسجد کی شہادت دراصل اس آزادی پر حملہ ہے۔ آر ایس ایس نے ١٩٨٠ کے بعد اس کو ملکی سطح کا مسئلہ بنا دیا۔

سیکولر جماعت کہی جانے والی سیاسی پارٹی نے شیلانیاس کروایا۔ لبراہن کمیشن نے ٦٨ لوگوں کو مجرم قرار دیا مگر آج تک وہ مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا ٢٠١٩ کا فیصلہ انصاف پسندوں کو رسوا کرنے والا فیصلہ ہے۔ یہ عقیدت کا مسئلہ نہیں بلکہ ہندوتوا کے نفاذ کا مسئلہ تھا۔

       اس کے بعد "بابری مسجد اہم کیوں ؟” موضوع پر ابراہیم خلیل عابدی، سابق پروفیسر صابو صدیق کالج نےبابری مسجد کی بازیابی کی ضرورت پر اپنی گفتگو میں فرمایا کہ انگریزوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لئے ہندو مسلم میں نفرت کی دیوار کھڑی کردی۔ بابری مسجد کے مجرم سب سے پہلے انگریز پھر کانگریس بعد ازاں باقی تنظیمیں و ادارے، انتظامیہ وغیرہ۔ مگر مسلمان اپنے مؤقف پر قائم رہے اور کوئی سودے بازی نہیں کی۔ مسلمانوں کا قصور یہ ہےکہ انہوں نے عدالت اور قانون پر بے جا بھروسہ کیا۔

بابری مسجد انتقام لے رہی اس کی مثال نرسمہا راؤ کی بھیانک و عبرتناک موت ہے ۔ واجپئی کی آخری وقت کی زندگی بھی عبرت انگیز رہی ۔ اڈوانی جس کا طوطی بولتا تھا، اس نے اپنے آخری پانچ سال میں صرف ٣٦٥  الفاظ بول سکے ۔ یہ سب ڈسپلے (display) کے ذریعے فلم کی شکل میں شرکاء کو بتایا گیا۔ آخری بات انہوں نے یہ کہی کہ پرسنل لاء بورڈ کا مؤقف مسلمانوں کا مؤقف ہے، "بابری مسجد تھی، ہے اور رہے گی۔ "

      سیمینار کی صدارت ضیاء الدین صدیقی ، معتمد عمومی وحدت اسلامی ہند نے فرمائی۔ آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ردعمل کا نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے فیصلہ تسلیم کیا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت دہشت گردانہ حملہ ہے۔ بابری مسجد کی شرعی حیثیت مسلمانوں کا مؤقف ہےاور یہ تاقیامت مسجد ہی رہے گی۔ انسان کی زندگی کم و بیش ساٹھ سال رہتی مگر قوموں کی زندگی صدیوں پر محیط ہوتی ہے۔ بابری مسجد ایک نہیں ہے، بلکہ متھرا کی مسجد اب نشانے پر ہیں۔ گیان واپی مسجد اور اس طرح کئی مساجد اب قطار میں ہیں۔

ہم کورٹ میں حق ملکیت پر لڑتے رہے جبکہ رام کے وجود اور ایودھیا کے مقام کو چیلنج کرنے کی ضرورت تھی۔ چرت مانس میں بھی کوئی رام کی جائے پیدائش کا ذکر نہیں ہے۔ تاریخ میں جو غلطیاں ہوئی ہیں اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہم انتظار کریں گے اور جب  قوت حاصل  کریں گے تب انصاف کریں گے۔ ان شاءاللہ! سپریم کورٹ نے زمین سماج دشمن عناصر کے حوالے کر دی، جنہوں نے ١٩٤٩ میں چوری چھپے مسجد میں مورتی رکھی تھی، انہیں کورٹ نے سماج دشمن عناصر قرار دیا تھا۔ تاریخ میں یہ کہیں ثابت نہیں ہے کہ مندر کو توڑ کر مسجد بنائی گئی، مگر تاریخ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ مسجد کو شہید کر کے مندر بنایا گیا ہے۔

Comments (0)
Add Comment