نیتن یاہو عہد کا خاتمہ!

عارِف اگاسکر
تقریباً دو دہائی سے زائدعرصہ تک اسرائیل کے وزیر اعظم رہے بنجامن نتین یاہو کے عہد کا اب خاتمہ ہو تا نظر آرہا ہے۔ نتین یا ہو نے اپنے دور اقتدار میںفلسطینیوں پرعرصہ حیات تنگ کیا تھا اور ان پر ایسے ایسےمظالم ڈھا ئے ہیں جسے سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔لیکن اس نسل پرست اور بد دماغ لیڈر کو آج قدرت نےاس کے انجام تک پہنچا دیا ہے اور اس کا سیاسی زوال شروع ہو چکا ہے۔چھ ماہ قبل ان کی لکوڈ پارٹی کو کل ۳۶؍ سیٹیں ملی تھیں لیکن ایوان میں اکثریت ثابت نہ کر نے سے انھیں دو بارہ انتخا بات کا سامنا کر نا پڑا۔ اس کے باوجود اس بار بھی وہ اکثریت سے کو سوں دور رہے ہیں اور اقتدار تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ پر بد عنوانی کے سنگین الزامات ہیں۔اگر عدالت میں ان پر عائد الزامات ثابت ہو ئے تو انھیں ذلیل وخوار ہو نے کے ساتھ ساتھ جیل کی سلاخوں کےپیچھےجانا پڑے گا۔ نتین یاہو کے تعلق سے ۴؍ اکتوبر کے مراٹھی روز نامہ مہاراشٹر ٹائمز میں کالم نگار ’ الوک اوک‘ رقم طراز ہیں کہ رواں سال اسرائیل کی داخلی سیاست کے لیے دھماکہ خیز سال ثابت ہواہے۔
اپریل ۲۰۱۹ءمیں اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے قبل از وقت انتخابات عمل میں لائے ہیں۔ انھوں نےاپنی قیادت میں لِکوڈ پارٹی کواسرائیلی ’کنے سیٹ‘ (پارلیمنٹ) میں مکمل اقتدار دلانے کی نا تمام کو شش کی لیکن انھیں اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔سخت گیریہودی نواز ، سیکو لر ، قوم پرست اور دیگر دائیں بازو کی پارٹیوں کو ساتھ لے کر نیتن یاہو نے کسی طرح اکثریت حاصل کر نے کے لیے ضروری ۶۵؍ سیٹیں حاصل کیںاورپانچویں بار وزارت عظمیٰ کا حلف لے کر طویل عرصہ تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے کااعزاز حاصل کیا۔لیکن ایک ماہ ہی میں سیکولر قوم پرست نظریہ کے حامی اسرائیل بیتے نو پارٹی کے اوی گڈو لِبر مین نے حکومت سےاپنی حمایت واپس لی جس کی وجہ سے متحدہ محاذ کی حکومت گر گئی۔ لِبر مین کا اصرار تھا کہ سخت گیر یہودی نواز مذہبی تعلیمی اداروں کے طلباء اسرائیل میں جاری سختی کی فوجی خدمات کی تعمیل کر یں(اس مذہبی تعلیمی اداروں کو اقلیتوں کے مسائل پر رعایت حاصل ہے)۔مئی ۲۰۱۹ء میں متحدہ محاذ کی حکومت کے گر نے کے بعد حزب مخالف پارٹی ’بلیو اینڈ وائٹ ‘پارٹی کو حکومت قائم کر نے کا مو قع ملنا چاہئے تھا۔لیکن نیتن یاہو کے دبائو میں آکر اسرائیلی صدر نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا اور ستمبر میں نئے انتخابات لینے کا اعلان کر دیا۔
ہندستان کی خارجہ پالیسی میںاسرائیل کو کافی اہمیت حاصل ہے اس لیے اسرائیل کے واقعات پر ہندستان باریک بینی سےنظر ر کھے ہوئے ہے۔آزادی سے لے کر۱۹۹۲ء تک ہندستان اور اسرائیل کے مابین آپسی تعلقات نہیں تھےلیکن فلسطین کے تعلق سے کئی معاملوں پر ہندستان کی اسرائیل کو خاموش حمایت حاصل رہی ہےکیو نکہ ہم عرب ممالک سے بڑے پیمانے پر تیل حاصل کر تے ہیں۔اس کے علاوہ عرب ممالک میں ہند ستانیوں کی بڑی تعداد رہائش پذیرہے۔اس کے بعد کا دور سیاسی تعلقات کے تعلق سے انتہائی اہمیت کا حامل ہےکیو نکہ اس دور میں دو نوںممالک کے مابین تجارت کو فروغ حاصل ہوا ۔کئی شعبوں میں لین دین کا اضافہ ہوااورمعاشی مفادات قائم ہوئےاوردونوں ممالک کی تجارت اربوں روپئے ہو گئی اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔اس میں مزید اضافہ کے لیے اسرائیل میں سیاسی استحکام کا ہو ناضروری ہےاسی لیے وہاں کےتازہ واقعات کا جائزہ لینا اہم ہے۔
لکوڈ پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران اپنی تقریر اور عوامی بیانات میں نیتان یاہو جان بوجھ کر نسلی منافرت پھیلارہے تھے۔ وہ چیخ چیخ کر کہتے تھے کہ یہودی خواتین اور بچوں کو اسرائیل میں رہائش پذیر ۹؍ لاکھ فلسطینی عر بوں سے خطرہ لاحق ہے۔اسی طرح وہ معاشرہ میں فلسطینی شہریوں کے خلاف بیان بازی کر تے رہے۔جولائی میں امریکہ اور ایران کے مابین پیدا ہوئے تنازع کے سبب انھیں اس بات کا موقع ملا اورمغربی ایشیا میںپیدا ہو ئے اس عدم استحکام کا انہوں نے مکمل فائدہ اٹھا یا۔ انھوں نے بارہا ایران پر جنگ کی دھمکی دینے کا الزام عائد کیااور مغربی ایشیا میں عدم استحکام کے لیے ایران کو ذمہ دار ٹھہرایا۔اور اسی مقصد کے تحت انھوں نے اسرائیل کے قومی سلامتی کے مدعے کو مر کزی حیثیت فراہم کی۔ ان کے اس بیان پرکہ اگر جنگ شروع ہو ئی تو وہ امریکہ کی حمایت کریں گے فوراً تل ابیب کی سڑکوں پر نیتن یاہو اور ٹرمپ کی ہورڈنگ آویزاں ہوگئیں۔انھوں نے مغربی ساحل اور اردن کی وادی پر قبضہ کر نے نیز اسرائیل کی سرحد کو ’ڈیڈ سی‘ تک توسیع دینےکی یقین دہانی کی۔ ان کے کٹر مخالف بلو اینڈ وایٹ پارٹی کے بینی گینز(جو سابق فوجی سر راہ ہیں)نےچھوٹی چھوٹی عرب پارٹیوں کی حمایت حاصل کر نے اور انھیں یکجا کر نے کے لیے اہم کردار ادا کیا لیکن گنٹز نے اسرائیل کے قومی سلامتی کے مدعے کو اپنی انتخابی مہم میں اہمیت دی۔
نیتن یاہو کے ذریعہ دو بارہ انتخاب کا فیصلہ کا الٹا اثر ہوا اور عوا م کو خو فزدہ کر نےکا نتیجہ الٹا نکلا۔تقریباً ۶۱؍ فی صد فلسطینی عرب رائے د ہند گان نے ستمبر کے دو بارہ انتخاب میںاپنی حق رائے دہی کا استعمال کیا۔جبکہ نوجوان یہو دیوں نے بھی لِکوڈ پارٹی کے نسلی قوم پرستی کوناپسند کیا۔ نیتن یاہو کا دارو مدارسخت گیریہودی رائے دہند گان پر تھا۔ان کی تعداد اور طاقت بھی زیادہ ہے۔اس کے بر عکس قوم پرست،سیکو لر یہودیوںکے ووٹ لِکوڈ پارٹی کی بجائے بلو اینڈ وائٹ پارٹی کو حاصل ہوئے۔نیتن یاہو پر بد عنوانی کےتین سنگین الزامات ہیں جس کی سماعت عدالت میںاکتو بر میں شروع ہو نے کی توقع ہے۔اس بد عنوانی کی وجہ سے نیتن یاہو کی شبیہ داغدار ہو ئی ہےاورانھیں پارٹی کی مخالفت کا بھی سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ اگر وہ وزیر اعظم کے عہدہ پرفائز نہیں رہے تو آئین کے تحت انھیں حاصل سیکوریٹی بھی ختم ہو گی۔۱۷؍ ستمبر کو عمل میں آئے انتخابی نتائج میں بلو اینڈ وائٹ پارٹی کو 1151214(25.95فی صد ووٹوں کی تقسیم) اور پارلیمنٹ میں 33سیٹیں دستیاب ہوئیں۔جبکہ لِکوڈپارٹی کو1113617(25.10فی صد ووٹوں کی تقسیم)اور32سیٹیں حاصل ہوئیں۔حیرت کی بات ہے کہ فلسطینی عربوں کی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا اتحاد نامی ’جوائنٹ لِسٹ‘پارٹی کو470211ووٹ(10.60فی صد ووٹوں کی تقسیم) اور 13سیٹیں حاصل ہوئیں۔
لِبر مین کے اسرائیل بیتے نو پارٹی کو 310154ووٹ(6.99فی صد ووٹوں کی تقسیم)اور8سیٹیں حاصل ہوئیں۔پارلیمنٹ کی بقیہ سیٹوں میں سے شاس پارٹی کو 9سیٹیں ،یو نائٹیڈتورا جیو ڈائزم پارٹی کو7،یامینا پارٹی کو 7،لیبر پارٹی کو6اور ڈیمو کریٹک یو نین پارٹی کو 5سیٹیں حاصل ہوئیں۔لِکوڈ یا بلو اینڈ وائٹ میں سے کسی بھی پارٹی کو مکمل اکثریتی اعداد حاصل نہ ہو نے سے دو نوں پارٹیوں میںبحث جاری ہے۔دونوں ہی پارٹیوں نے وزیر اعظم کا عہدہ مقررہ میعاد کے لیے آپس میں بانٹ لینے کا فیصلہ کیا ہےلیکن نیتن یاہو کے بے جا مطالبےکے سبب مذاکرات ختم ہو ئے۔ نیتن یاہو بضد ہیں کہ پہلے مرحلے میں انھیں وزیراعظم بنایا جائے اور سخت گیریہودی وزراء کو قائم رکھا جائے۔ اگر چار ہفتوں میں نئی حکومت قائم نہیں ہوئی تو نو مبر میں تیسری مر تبہ انتخا بات ہو سکتے ہیں۔اگر ایسا ہوا تو اسرائیل سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔
اسرائیل کا مستقبل اب لِبر مین اور جوائنٹ لِسٹ پارٹی کے ہاتھوں میں ہے۔لِبر مین نے پہلے ہی اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ سخت گیر یہودیوں کی لِکوڈ پارٹی کی حمایت نہیں کریں گے۔جبکہ جوائنٹ لِسٹ پارٹی نے ’کنے سیٹ(پارلیمنٹ) میں حزب اختلاف کا کردار ادا کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔لِبر مین اب ’کِنگ میکر‘ بن سکتے ہیں۔نیتن یاہو کے خلاف پارٹی کےاندر ناراضگی پائی جا رہی ہے ۔ لِکوڈ پارٹی کےاراکین نےقیاد ت کے تعلق سے ہمیشہ وفاداری کا اظہار کیا ہےلیکن نیتان یاہو کا نام بد عنوانی میں ملوث ہو نے سے ان کی حمایت کر نے کا پارٹی کا ارادہ نہیں ہے۔پارٹی پر ان کی غیر معمولی گرفت کچھ اراکین کو مضطرب کر رہی ہےجس کی وجہ سے لِکوڈ پارٹی نئے لیڈرکا انتخاب کرسکتی ہے۔پارٹی کےاندرونی اختلافات، بینی گٹنز جیسےطاقتور شخص سےمقابلہ ، بد عنوانی کے الزامات ثابت ہو نے کی لٹکتی تلوار اور نو جوان رائے دہند گان کے چلے جانے سے عنقریب نیتن یاہو کے عہد کا خاتمہ نظر آرہا ہے۔

arifagaskar@gmail.com Mob:9029449982

Comments (0)
Add Comment