پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ کا حکم ریاست کے زیر سایہ قتل کی حوصلہ افزائی کرے گا

جو قتل کی حوصلہ افزائی کرے وہ قانون نہیں جرم ہے انکائونٹر میں مارے گئے مظفر نگر کے شہزاد کے گھر پہنچا رہائی منچ

لکھنو : کھتولی مظفر نگر کے شہزاد کو سہارنپور میں پولس انکائونٹر میں مارے جانے پر رشتہ داروں کے ذریعہ سوال اٹھائے جانے کے بعد رہائی منچ کے وفد نے ملاقات کی ۔ وفد میں رویش عالم ، آشو چودھری ، انجینئر عثمان ، آس محمد ، امیر احمد ، آرش تیاگی اور ساجد شامل تھے ۔

منچ نے یوگی کے ذریعہ بی جے پی کی جیت کے بعد نئے بھارت سے بنے گا نیا اتر پردیش کہتے ہوئے انکائونٹر کے نام پر قتل کو جائز ٹھہرانے پر شدید اعتراض جتایا ۔ رہائی منچ نے پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ کے ذریعہ دونوں ریاستی حکومتوں کو چھ مہینے میں اتر پردیش کی طرز پر جرائم پیشوں کیخلاف سخت قانون بنا کر ان کا صفایا کرنے کے حکم کو قتل کرنے کیلئے قانون بنائے جانے کو عوام مخالف حکم قرار دیا ۔ حکم میں یوپی کی طرز پر گینگسٹر اور غیر سماجی سرگرمیاں مخالف قانون ۱۹۸۶ پاس کرنے کو کہا ۔ میڈیا میں آئی خبریں بتاتی ہیں کہ کورٹ کی زبان یوگی کے ٹھوک دینے اوپر پہنچا دینے جیسی قابل اعتراض ہے ۔

رہائی منچ کے صدر محمد شعیب نے کہا کہ یہ عدالتی حکم ایسے وقت آیا ہے جب اتر پردیش میں اسی قانون کا سہارا لے کر پسماندہ طبقات ، دلت اور مسلم اقلیتوں کا انکائونٹر میں قتل ہو رہا ہے ۔ نوجوانوں کو معذور بنایا جارہا ہے ۔ ایسے کئی معاملے کی تفتیش قومی حقوق انسانی کمیشن کے سامنے زیر غور ہے اور سپریم کورٹ میں بھی پی یو سی ایل کی درخواست زیر سماعت ہے ۔

انہوں نے کہا اس طرح آنکھیں بند کرکے دیا گیا فیصلہ پولس کے مجرمانہ ذہنیت کو بڑھاوا دینے والا ہے ۔ امن و قانون کی صورتحال درست کرنے کے نام پر اگر کسی قانون سے دستور اور بنیادی حقوق کی دھجیاں اڑیں تو یہ انصاف کے حق میں نہیں ہے ۔ ایسا قانون بنیادی حقوق کیخلاف ریاست کا مہلک ہتھیار ہوگا ، ریاست کے زیر سایہ قتل کو قانونی حیثیت عطا کرے گا اور ریاستی حکومت کے مفاد کیلئے جمہوریت کو یرغمال بنائے گا ۔

محمد شعیب نے کہا مجرموں کے صفائے کے نام پر اتر پردیش میں ہوئے انکائونٹر کو زندگی حق سے مستثنیٰ کرنے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا معاملہ ہے ۔ یہ المیہ ہے کہ عدالت نے فیصلہ سناتے وقت اس حقیقت کو دھیان میں نہیں رکھا ۔ عدالتی فیصلہ نے فرضی انکائونٹر کے الزامات سے گھری یوگی حکومت کو جیسے راحت کا کام کیا ہے ۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے پرجوش ہو کر اتر پردیش پولس نے بنا کوئی وقت ضائع کئے اعداد و شمار جاری کردیئے ۔

سرکاری اعداد شمار کے مطابق یوگی حکومت کی ڈھائی سالہ اقتدار میں کل ۳۵۹۹ انکائونٹر ہوئے ۔ ان میں ۷۳ موتیں ہوئیں اور ۱۰۵۹ نام نہاد جرائم پیشہ افراد زخمی ہوئے ۔ تمام معاملوں میں بورا باندھ کر گولیاں ماری گئیں ۔ کل ۸۲۵۱ جرائم پیشوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا ۔ اس کے باوجود ریاست میں جرائم میں اضافہ جاری ہے ۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ حکومت کا جرائم مخالف مہم جرائم کیخلاف نام کا ہی ہے ۔ ارادہ تو دلتوں ، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کیخلاف سیاسی دشمنی کا بدلہ لینا ہے ۔ اتر پردیش کی مثال دے کر قانون بنانے اور جرائم پیشوں کے صفائے کرنے کی بات کہنا حزب اقتدار سے جڑے جرائم پیشوں کو تحفظ فراہم کرنے اور منظم جرائم کو بڑھاوا دینا ہے ۔ یہ سیاسی مخالفین کو دبانے کو قانونی لبادے میں جائز ٹھہرانے جیسا ہے ۔

ہر ایک شہری کو جینے کا حق ہے ، یہ بنیادی حق ہے ۔ انکائونٹر کا مطلب قتل کرنا نہیں ہوتا ۔ قتل کرنا سنگین جرم ہے اور اس کے لئے قانوناً سخت سزا کا قانون موجود ہے ۔ قتل کرنے کا کوئی قانون نہیں ہو سکتا اس لئے اسے کسی بھی حالت میں مبنی بر انصاف نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ سزا دینے کا حق کسی حکومت کو نہیں دیا جاسکتا ۔

Comments (0)
Add Comment