مہاراشٹر مسلم سنگھ کا آئندہ الیکشن میں کانگریس کی حمایت کا فیصلہ

اسلام جمخانہ میں منعقدہ سنگھ کی میٹنگ میں مسلمانوں کے مسائل کے حل کئے گیارہ نکاتی پروگرام بھی پیش کیا گیا

ممبئی : کوکن مسلم یوتھ فیڈریشن، ودربھ ایسوسی ایشن نیز دیگر این جی اوز کی وفاقی تنظیم مہاراشٹر مسلم سنگھ نے آنے والے الیکشن میں کانگریس پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام جمخانہ مرین لائن میں منعقدہ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے جس میں مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ممبر پارلیمنٹ اشوک چوہان ، سابق کابینی وزیر محمد عارف نسیم خان ، سابق ایم ایل اے یوسف ابراہانی ، سابق ایم ایل اے بشیر موسیٰ پٹیل ، بشیر حجوانی ، انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی کے علاوہ مہاراشٹر بھر سے آئے ہوئے مسلم سماجی لیڈران وکارکنان موجود تھے ۔ واضح رہے کہ گزشتہ الیکشن میں مہاراشٹر مسلم سنگھ نے بی جے پی کی حمایت کی تھی ، لیکن مسلم مسائل سے چشم پوشی ، بڑھتی فرقہ پرستی ، شریعت میں مداخلت ، موب لینچنگ وغیرہ جیسے معاملات کی وجہ سے سنگھ بی جے پی سے شدید ناراض ہے ۔ اسی ناراضگی کی بناء پر اس نے اس بار بی جے پی کے خلاف مہم چلانے نیز کانگریس کو کامیاب کرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سنگھ کا دعویٰ ہے کہ اس کی حمایت کی وجہ سے بی جے پی کو ۱۴؍فیصد مسلمانو ں نے ووٹ دیا تھا ۔

اس موقع پر مہاراشٹر مسلم سنگھ کی جانب سے کانگریس کے صدر کومسلمانوں کے مسائل پر مبنی گیارہ نکاتی ایجنڈا پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ ریاست میں کانگریس کی حکومت بننے کے بعد وہ ترجیحی بنیادوں پر اسے حل کریں گے ۔ سنگھ کے چیف کنوینر فقیر محمد ٹھاکور نے اپنے پیش کردہ نکات پر عمل درآمد کی شرط پر کانگریس کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گزشتہ الیکشن میں بی جے پی کی حمایت بھی انہیں نکات پر کی تھی ، لیکن حکومت بننے کے بعد بی جے پی نے ملک کے دیگر طبقات کی مانند مسلمانوں کو بھی دھوکہ دیا ۔ اس لئے ہم نے اس بار کانگریس کو حمایت دینے کا فیصلہ کیا ہے ، لیکن یہ فیصلہ ہمارے پیش کردہ نکات پر عمل آوری سے مشروط رہے گی ۔ جبکہ ریاست کے مختلف مقامات سے آئے لوگوں نے اپنے اپنے طور پر مسائل کو بھی پیش کیا جس میں علاقائی قیادت کو مضبوط نیز مسلمانوں کونمائندگی دیئے جانے کا خاص طور سے تذکرہ کیا ۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مہاراشٹر ریاستی کانگریس کے صدر اشوک چوہان نے کہا کہ مسلم ہی نہیں بلکہ تمام لوگوں کے مسائل حل کرنے میں کانگریس نے ہمیشہ آئین کی پاسداری کی ہے ۔ کانگریس ایک سیکولر پارٹی ہے اورآئین کے مطابق کام کرتی ہے ۔ انہوں نے ملک کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب سے مرکز وریاست میں بی جے پی کی حکومت کی قائم ہوئی ہے ، پوار سسٹم تباہ ہورہا ہے ۔ آئین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور ایک خاص نظریات کے تحت حکومت چلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ۴ ججوں کو پریس کانفرنس کرکے ملک کی توجہ مرکزی حکومت کی عدلیہ کی دخل اندازی کی جانب مبذول کرانی پڑی ۔

تعلیمی اداروں کے نصاب تبدیل کئے جارہے ہیں اور ان کی جگہ آر ایس ایس کے نظریات پرمبنی نصاب لایا جارہا ہے ۔ آج حکومت ہمارے کھانے پینے ورہنے سہنے کے طور طریقوں کا فیصلہ کررہی ہے ۔ کھلے عام بم بنائے جارہے ہیں اور بم کے ساتھ گرفتارلوگ آزاد گھوم رہے ہیں ۔ مالیگاؤں بم دھماکوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت سطح پر سرکاری وکیل کو مقدمے کی پیروی میں نرم رویہ اختیار کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے ۔  یہ صورت حال کانگریس کے دورِ اقتدار میں کبھی نہیں رہی ۔ اس لئے آج ہمارا سب پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ کس طرح اس فاششٹ حکومت کوختم کیا جائے ۔ ان عناصر سے اس ملک کو بچانا بہت ضروری ہے ۔

اجلاس میں شریک مندوبین کی شکایتوں پر سابق کابینی وزیر محمد عارف نسیم خان نے کہا کہ جو لوگ کانگریس پر مسلم مسائل سے عدم توجہی کی شکایت کررہے ہیں انہیں پوری معلومات حاصل کرنی چاہئے ، اس کے بعد شکایت کرنی چاہئے ۔ بغیر پوری معلومات کے محض غلط فہمی کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے دورِ حکومت میں چاہے وہ اردو اسکولوں کی منظوری کا معاملہ ہو ، اقلیتی طالبات کے لئے ہوسٹل کی تعمیر کا معاملہ ہو ، عبادت گاہوں کے لئے زائد ایف ایس آئی کا معاملہ ہو یا پھر اقلیتی طلبہ کو ہنر مند بنانے کے لئے آئی آئی ٹی کے قیام کا معاملہ ہو ، یہ سب کانگریس کے ہی دور میں ہوئے ہیں ۔ جبکہ موجودہ حکومت میں آج تک ایک بھی ایساکوئی کام نہیں کیا جو مسلمانوں کی فلاح وبہبودسے تعلق رکھتا ہو ، یہاں تک کہ ایک اردو اسکول کی بھی منظوری نہیں دی گئی ۔ نسیم خان نے اس موقع پر پوری ریاست میں مسلمانوں کے مسائل کے حل کئے جانے کی کوششوں کا خاص طور سے تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں جہاں بھی مسلمان پریشان ہوتے ہیں ، سب سے پہلے ہم ہی ان کی مدد کے لئے پہونچتے ہیں ، اس کے باوجود کانگریس پر مسلم مسائل سے چشم پوشی کا الزام عائد کیا جاتا ہے جو افسوسناک ہے ۔ نسیم خان نے اپنی تقریر مراٹھی میں کرتے ہوئے کوکن ومہاراشٹر سے آئے ہوئے مسلمانوں کا دل جیت لیا ، جس کے بعد کچھ لوگوں نے کانگریس اور نسیم خان کی خدمات کا علانیہ اعتراف بھی کیا ۔

سابق ایم ایل اے یوسف ابراہانی نے مسلمانوں کے مسائل پر موجودہ حکومت کے رویئے کا خاص طور سے تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ہم کانگریس سے اپنے مسائل کے حل کی یقین دہانی کی بات کرتے ہیں لیکن اگر موجودہ حکومت کے رویئے پر غور کریں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ کانگریس ہی ہے جو مسلمانوں کے مسائل حل کرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایسا کوئی بھی ملک نہیں ہے جہاں طلاق کے بعد شوہر کو جیل میں ڈالے جانے اور جیل میں رہتے ہوئے اس پر مطلقہ کے اخراجات بھی ادا کرنے کا قانون ہو ۔ لیکن بی جے پی نے یہ کردکھایا ۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس پر تمام الزامات اپنی جگہ لیکن اس نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا ۔ اس نے کبھی نوٹ بندی و جی ایس ٹی کے ذریعے غریبوں کو تباہ نہیں کیا ۔ اس لئے اس ہمارے سامنے کانگریس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ یوسف ابراہانی کے اس بات کی وہاں پر موجود لوگوں نے بھی تائید کی ۔ اس میٹنگ میں دیگر مقررین نے بھی مسلمانوں کے مسائل پر اظہار خیال کیا جن میں سابق ایم ایل اے بشیر موسیٰ پٹیل ، انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی ، مقبول والندکر ، فاروق ماپکر ، مولانا گلزار وغیرہ قابل ذکر ہیں ، جبکہ دیگر این جی اوز کے نمائندوں نے مسلمانوں کے مسائل کا تذکرہ کیا ۔

Comments (0)
Add Comment