عید کے موقع پر خوشی کا اظہار کریں  سادگی کی تلقین درست نہیں

محمد رضی الاسلام ندوی

سکریٹری شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند

کورونا وائرس سے نپٹنے کے لیے ملک میں چوتھے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ یہ31 مئی 2020ء تک جاری رہے گا۔اس کے مطابق اگرچہ بعض ضروری خدمات کو بحال کیا گیا ہے،آمد و رفت کے لیے اسپیشل ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں اورمتعیّن اوقات میں دوکانیں کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، لیکن مذہبی مقامات کو ابھی پابندی کے دائرے میں رکھا گیا ہے اور مذہبی اجتماعات کرنے اور اجتماعی طور پر مذہبی مراسم بجا لانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔اس سے یہ بات طے ہو گئی ہے کہ عید الفطر کا زمانہ بھی لاک ڈاؤن میں گزرے گا ۔ اس فیصلے سے مسلمانوں کی تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ ان کی تمام عبادات میں اجتماعیت کی روح پائی جاتی ہے ۔ وہ نمازوں کی ادائیگی مسجدوں میں جماعت کے ساتھ کرتے ہیں ۔ رمضان المبارک میں ان کا ذوقِ عبادت بہت بڑھ جاتا ہے،رمضان کی ایک خاص عبادت نمازِ تراویح ہے، جس کا وہ خصوصی اہتمام کرتے ہیں ۔ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور رمضان میں انہیں مساجد جاکر عبادت کرنے کا موقع نہیں مل سکا ہے ۔ اب اس کی توسیع سے عید الفطر بھی اس کی زد میں آگئی ہے۔ اس سے ان کے احساسِ محرومی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے ۔ بہر حال انہیں صبر کا دامن تھامے رہنا چاہیے اور اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہیے کہ اس مہلک وبا سے پوری انسانیت کو نجات دے، تاکہ معمول کی سرگرمیاں جاری ہو سکیں ۔

رمضان المبارک کے پورے مہینے روزہ رکھنے کے بعد مسلمان شکرانے کے طور پر عید الفطر کی نماز ادا کرتے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا معمول تھا کہ آپ عید کی نماز آبادی سے باہر نکل کر عیدگاہ میں ادا کرتے تھے۔ آپ ؐ نے ہمیشہ اس کی پابندی کی اور صحابۂ کرام کو بھی اس کی تاکید کی۔ آپؐ عورتوں کو بھی عیدگاہ جانے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ عید کے دن بارش ہوگئی، جس کی وجہ سے عیدگاہ جانا ممکن نہ رہا توآپ ؐ نے صحابۂ کرام کو مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیا اور وہیں عید کی نماز پڑھائی (ابو داؤد) حضرت انس بن مالک ؓ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بصرہ کے مضافاتی علاقے ’زاویہ‘ میں رہتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ عید کی نماز پڑھنے شہر نہ جا سکے، چنانچہ آپ نے تمام گھر والوں کو جمع کیا اور اپنے آزاد کردہ غلام کو حکم دیا کہ انہیں نماز پڑھائے ۔(مسند طیالسی) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معمول کے دنوں میں عید کی نماز عیدگاہ یا جامع مساجد میں جا کر پڑھنا بہتر ہے، لیکن اگر کسی عذر کی بنا پروہاں نماز پڑھنی ممکن نہ ہو تو گھروں پر بھی اس کی ادائیگی ہو سکتی ہے ۔ لاک ڈاؤن کے زمانے میں بعض فقہا نے گھروں پر نماز جمعہ با جماعت ادا کرنے کی اجازت دی ہے ۔ اسی طرح عید کی نماز بھی ادا کی جا سکتی ہے ۔ جو شرائط نمازِ جمعہ کے لیے ہیں وہی نمازِ عید کے لیے بھی ہیں ۔ جماعت کے لیے چار افراد کا ہونا ضروری ہے۔کسی گھر میں چار افراد ہوں تو وہ باجماعت عید کی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ اس میں زائد تکبیرات کہی جائیں گی۔(امام شافعی کے نزدیک پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیرات، جب کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ہر رکعت میں تین تکبیرات زائد ہیں)عید کی نماز کا ایک جز خطبہ ہے ۔ عید کی نماز واجب یا سنّتِ مؤکدہ، جب کہ خطبہ سنّت ہے ۔ اگر خطبہ دینا ممکن ہو تو بہتر ہے۔ کوئی خطبہ دینے والا نہ ہو تواسے ترک کیا جا سکتا ہے ۔ اگر کسی گھر میں چار افراد نہ ہوں توعید کی نماز کے بجائے صلوٰۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) انفرادی طور پر پڑھی جائے گی ۔ بعض احادیث میں اس کی دو رکعت اور بعض میں چار رکعت بتائی گئی ہے ۔ چار رکعت کو ایک سلام سے بھی پڑھا جا سکتا ہے اور دوسلام سے بھی ۔

عید الفطر سے جڑی ہوئی ایک عبادت صدقۂ فطر ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے واجب قرا دیا ہے اور اس کے دو (۲) فائدے بتائے ہیں : ایک یہ کہ اس سے روزوں میں ہونے والی کمیوں اور کوتاہیوں کی تلافی ہوتی ہے۔دوسرے اس سے غریبوں اور مسکینوں کو کچھ کھانے کو مل جاتا ہے۔(ابو داؤد) صدقۂ فطر کی ادائیگی یوں تو رمضان المبارک کی ابتدا یا وسط میں کی جا سکتی ہے، لیکن اسے رمضان کے آخری ایام میں، بلکہ عید سے دو ایک دن قبل ادا کرنا پسندیدہ ہے۔صحابۂ کرام کا یہی معمول تھا ۔ بہت پہلے ادا کرنے میں یہ اندیشہ ہے کہ غریب اسے خرچ کرلے گا اور عید کے دن بالکل خالی ہاتھ ہوجائے گا۔ اس کی آخری حد عید کی نماز ہے۔حدیث میں ہے کہ جس شخص نے صدقۂ فطر عید کی نماز سے قبل ادا کیا وہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگا، لیکن اگر کسی نے عید کی نماز کے بعد اس کی ادائیگی کی تو اس کی حیثیت عام صدقات کی ہوجائے گی۔(ابو داؤد) صدقۂ فطر گھر کے تمام افراد پر واجب ہے ۔ گھر کا سربراہ اپنی طرف سے اور تمام افرادِ خانہ کی طرف سے ادا کرے گا ۔ حدیث میں ان اجناس کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں صدقۂ فطر ادا کیا جا سکتا ہے اور ان کی مقدار بھی بتائی گئی ہے ۔ کھجور، کشمش،پنیریا جَوایک صاع(ساٹھے تین کلو) اور گیہوں نصف صاع(پونے دو کلو) ادا کرنا چاہیے ۔عہد نبوی میں ان کی قیمتیں تقریباً برابر تھیں، اب ان میں بہت تفاوت ہوگیا ہے ۔ اس کی رعایت سے ہر ایک کے لیے گیہوں کی مقدار میں صدقۂ فطر ادا کرنا ضروری نہیں، بلکہ اصحابِ ثروت لوگ حسبِ توفیق و استطاعت دیگر اجناس کے مطابق بھی صدقۂ فطر ادا کرسکتے ہیں ۔ صدقۂ فطر کی ادائیگی مذکورہ اجناس میں بھی کی جا سکتی ہے اور ان کی قیمت بھی ادا کی جاسکتی ہے، بلکہ آج کل نقدی کی شکل میں ادائیگی بہتر ہے ۔

لاک ڈاؤن کے چوتھے مرحلے میں دوکانیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس بنا پر اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ رمضان کے آخری دنوں میں بازاروں میں بھیڑ ہونے لگے اور مسلمان رمضان کی خریداری میں جٹ جائیں ۔ چوں کہ کورونا کی بیماری ملنے جلنے سے پھیلتی ہے، احتیاط ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے لوگوں کے بڑی تعداد میں اس بیماری میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔اس لیے یہ مشورہ دینا تو مناسب ہے کہ مسلمان بازاروں میں کم سے کم جائیں اور جب جائیں تو پوری احتیاط ملحوظ رکھیں، لیکن اس موقع پر بعض مذہبی شخصیات کی جانب سے یہ باتیں بھی کہی گئیں کہ مسلمان عید کے موقع پر نئے کپڑے نہ پہنیں، سادگی سے عید منائیں اور جو پیسے بچیں وہ غریبوں اور محتاجوں میں خرچ کردیں۔اس طرح کی باتیں اسلامی تعلیمات کی درست ترجمانی نہیں کرتیں ۔عید خوشی کا موقع ہوتا ہے ۔ اس کا ضرور اظہار ہونا چاہیے۔ مدنی عہد میں مسلمان متعدد مواقع پر مصیبتوں کا شکار ہوئے، جنگوں میں خاصی تعداد میں شہید ہوئے، لیکن اگلی عید میں اللہ کے رسول ﷺ نے کبھی یہ ہدایت نہیں فرمائی کہ اس بار مسلمان سادگی سے عید منائیں ۔ کہنا چاہیے کہ جس کے پاس نئے کپڑے ہوں وہ انہیں زیب تن کرے،جو نئے کپڑے خرید سکتا ہو، خرید لے، جس کے پاس نئے کپڑے نہ ہوں وہ پرانے صاف ستھرے کپڑے پہنے ۔ رمضان المبارک کو ’شہر المواساۃ‘ (ہم دردی و غم خواری کا مہینہ) کہا گیا ہے ۔ اس ماہ میں مال دار مسلمانوں کو اپنی زکوٰۃ نکالنے کے علاوہ زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کا اہتمام کرنا چاہیے اور عام فقرا و مساکین کے ساتھ اپنے نادار رشتے داروں کا بھی خصوصی خیال رکھنا چاہیے اور عید کی خوشیوں میں انہیں بھی شریک کرنا چاہیے ۔

لاک ڈاؤن کی اس تکلیف دہ صورت حال کے دوران میں مسلمان ایک دوسری آزمائش سے دوچار ہیں ۔ گزشتہ مہینوں میں سی اے اے کے ظالمانہ قانون اور این پی آر میں بے جا دفعات کے اضافہ کے خلاف انھوں نے جو مزاحمت کی تھی اس سے حکومت کو اپنے منصوبے کو نافذ کرنے میں کام یابی نہیں مل سکی ۔اس کا انتقام اب وہ اس طرح لے رہی ہے کہ جو مسلم نوجوان اس تحریک میں پیش پیش تھے ان کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کر رہی ہے اور سخت ترین دفعات کے تحت انہیں داخلِ زنداں کر رہی ہے۔اندازہ ہے کہ ان نوجوانوں کی عید جیلوں میں ہی ہوگی۔اس موقع  پر مسلمانوں کی دینی و ملّی تنظیموں کی ذمے داری ہے کہ ان نوجوانوں کی پشت پناہی کریں، انہیں سہارا دیں،قانونی امداد فراہم کریں۔ اسی طرح ان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ ان نوجوانوں کے اہلِ خاندان سے رابطہ رکھیں،انہیں حوصلہ دیں،وہ معاشی پریشانی اور تنگی کا شکار ہوں تو حتّی المقدوران کی مالی مدد کریں۔یہ نوجوان امّت کا قیمتی سرمایہ ہیں۔انہوں نے اپنے کیریر کی پروا نہ کرتے ہوئے ان ظالمانہ قوانین کی مخالفت میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ان کی مکمل حمایت کرنا اورحکومت کے داروگیر سے انہیں نجات دلانا امّت کا فرض بھی ہے اور ان پر قرض بھی۔

Comments (0)
Add Comment