صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

اردو مرکز میں مراٹھی و اردو کے شاعر و ادیب پر مشترکہ نشست

مادھو جولین اور چکبست لکھنوی کو ان کی یوم پیدائش پر خراج عقیدت

1,588

ممبئی : اردو مرکز مدنپورہ اپنی ہمہ جہت کوششوں سے بہت سی انجمنوں اور تنظیموں میں ایک انفرادی شناخت قائم کرنے کی جانب گامزن ہے ۔ ۲۰ ؍جنوری اتوار کو ایک ادبی اور شعری نشست کا انعقاد ہوا جس میں اردو اور مراٹھی کے شعراء و ادبا ء نے شرکت کی اور بہت ہی قلیل تعداد سامعین کی بھی موجود تھی ۔نشست اردو کے مایہ ناز شاعر و ادیب پنڈت برج نرائن چکبست لکھنوی اور مراٹھی کے ادیب و شاعر جولین مادھو کی یوم پیدائش کی مناسبت سے رکھی گئی تھی ۔واضح ہو کہ چکبست لکھنوی کی پیدائش ۱۹ ؍ جنوری ۱۸۸۲ میں ہوئی تھی جن کا شمار بلاتفریق ہر دلعزیز اور مایہ ناز شاعروں میں ہوتا ہے ۔مراٹھی کے شاعر اور ادیب مادھو ٹرِمبَک پٹوردھن جولین کی پیدائش ۲۱ ؍ جنوری ۱۸۹۴ میںبڑودہ میں ہوئی تھی ۔سامعین کا خیال تھا کہ اس طرح کے پروگرام سے اردو اور مراٹھی ادیبوں اور شاعروں کے درمیان حائل دیواروں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی اور اجنبیت کا خاتمہ ہوگا جس سے سماجی روابط میں اضافہ ہوگا اور لسانی تعصب پر قد غن لگے گا ۔


مادھو جولین کی زندگی اور اور ان کے ادبی کارناموں پر گفتگو کرتے ہوئے روپاریل کالج میں پالیٹیکل سائنس کے پروفیسر اویناش کولہے نے کہا کہ مادھو جولین مراٹھی ادب کے وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے فارسی ادب سے متاثر ہو کر مراٹھی شاعری کو انسانی قدروں اور جذبات سے ہم آہنگ کرایا ۔انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل مراٹھی میں صرف ہندو دیو مالائی قصے کہانیوں کو ہی منظوم کرنے کا چلن تھا ۔مادھو جولین نے مراٹھی شاعری کو انسانی جذبات کے بیانیہ کی شاعری بنایا ۔یعنی انہوں نے مراٹھی شاعری کو افسانوی طرز سے یکایک انسانی جذبات کی ترجمانی کرنے والی شاعری میں تبدیل کردیا ۔بلاشبہ وہ مراٹھی شاعری میں اس صنف کے بابا آدم ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مادھو جولین فارسی کے پروفیسر تھے اس کی وجہ سے انہوں نے کئی فارسی مثنویوں کو مراٹھی کے قالب میں ڈھالا ۔انہوں نے فارسی مراٹھی لغت کی تدوین بھی کی ۔ سبکدوش معلمہ ڈاکٹر انوپما اُجگرے جو کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں نے بھی مادھو جولین کی زندگی پر مختصر روشنی ڈالی اور ان کی کئی نظمیں پڑھ کر سنائیں ۔


پنڈت برج نرائن چکبست کی زندگی اور ان کے ادب و شعریات پر معروف شاعر و ادیب احمد وصی نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی شخصیت کی بات کی جاتی ہے تو اس کی زندگی کے کسی ایک پہلو کو اتنا عام کیا جاتا ہے کہ دوسرا پہلو پس پشت چلا جاتا ہے ۔ایساہی چکبست کے ساتھ بھی ہوا ان کی شاعری پر اتنی گفتگو ہوئی اور ہوتی ہے کہ ان کے نثری کارنامے چھپ جاتے ہیں ۔وہ جتنے شاعری میں باکمال تھے اتنا ہی ان کا نثری ادب بھی اردو کی روایتی چاشنی اور جاذبیت لئے ہوئے ہے ۔احمد وصی نے کئی رسائل اور اخبارات کے نام بھی لئے جن کی ادارت کی ذمہ داری چکبست نے سنبھالی اور اپنی صلا حیت کا لوہا منوایا ۔احمد وصی نے چکبست کی نظم ’رامائن کا ایک سین ‘ پڑھ کر سنائی جسے حاضرین نے سراہا اور مراٹھی کے ادیب و شاعروں نے بھی ان کے اچھوتے پہلو سے متعلق جان کر اپنی معلومات میں اضافہ کیا ۔
اس کے بعد مراٹھی شعراء انوپما اُجگرے ،ڈاکٹر منوج وراڈے اور چَنرے شیکھر نے اپنے مراٹھی کلام پیش کئے اور ساتھ ہی انہوں نے اردو سامعین کا خیال رکھتے ہوئے اس کے عام فہم معنی بھی بتائے ۔مراٹھی شعراء کے بعد اردو شعراء نے اپنے کلام پیش کئے ۔کلام پیش کرنے والوں میں احمد وصی ،ستیش شکلا رقیب ،سہیل اختر وارثی ،زبیر اعظمی صحرائی اور عبید اعظم اعظمی شامل ہیں ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.